Thursday, 16 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Qafla Kooch Kar Gaya Kab Ka

Qafla Kooch Kar Gaya Kab Ka

قافلہ کوچ کر گیا کب کا

ابا جی کو جب جگر کے کینسر میں لاحق ہونے کا علم ہوا تب تک وہ لا علاج ہو چکا تھا۔ اماں جی کی بطور سکول ٹیچر ملنے والی تنخواہ سمیت گھر کی ہر قیمتی چیز علاج میں لگتی گئی۔ ڈاکٹر انوار اے خان جو پاکستان میں جگر کے مایہ ناز ڈاکٹر ہیں انہوں نے میری حالت دیکھتے ہوئے میرے سامنے ایک فارم رکھا اور بولے " اس کو پڑھ لو اور اس پر سائن کر دو۔

شاید جگر کی پیوند کاری کے بعد جان بچائی جا سکے" وہ فارم زکوۃ فنڈ کا تھا، جس پر لکھا تھا کہ مجھے علاج کی خاطر زکوۃ فنڈ سے رقم ادا کی جائے۔ میں نے وہ پڑھا اور ڈاکٹر صاحب کو انکار کر دیا، میری پیدائش مذہبی سادات گھرانے میں ہوئی جہاں پڑھایا گیا تھا کہ زکوة کی رقم سادات پر حرام ہوتی ہے۔ والد کو کچھ ہوش آئی تو انہوں نے یہ معاملہ جان کر کہا "تم نے بالکل ٹھیک کیا، زکوة ہمیں نہیں لگتی۔

اس کے کچھ دنوں بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ والد کے انتقال کے پانچ سال بعد ابھی کچھ معاشی حالات سنبھلے ہی تھے کہ معلوم پڑا کہ اماں کے دونوں گردے بیس سال سے مسلسل شوگر رہنے کی وجہ سے ناکارہ ہو گئے ہیں۔ رفتہ رفتہ اماں ڈائلاسس پر منتقل ہو گئیں۔ اس زمانے میں ہفتے میں تین دن ڈائلاسس کروانا افورڈ نہیں ہوتا تھا۔ ہر ڈائلاسس سیشن پر 4500 روپے خرچہ آتا تھا اور ادویات کا خرچ اس کے علاوہ ہوتا تھا۔

ان دنوں میں آئی ٹی کی جاب کرتا تھا۔ تنخواہ گو کہ اچھی تھی، مگر اتنی نہیں تھی کہ سہولت سے علاج کروا سکتا۔ ڈاکٹر نے میرے سامنے پھر وہی فارم رکھ دیا اور میں نے اپنی روایات کے مطابق انکار کر دیا۔ ماں گزر گئی، ان کے بعد جب مجھ پر ذمہ داریوں کا کوئی بوجھ نہ رہا تو حالات پھر سے اچھے ہو گئے۔ بیٹی ہوئی پھر بیٹا ہوا۔ سب سیٹ چلتا رہا۔ فوٹوگرافی میں نام بنا تو نیشنل جیوگرافی نے میری ایک تصویر میگزین میں چھاپی۔

اس دور میں مجھے یونیورسٹی آف ہیلنسکی فن لینڈ سے دو سالہ فوٹوگرافی ماسٹر پروگرام میں فل اسکالرشپ کی آفر آئی۔ میری سابقہ بیگم نے مجھے روک دیا اور یہ طعنہ دیا کہ تم زمہ داریوں سے فرار چاہتے ہو، اس لئے وہاں جانا چاہتے ہو، بس پھر خون نے روایتی جوش مارا اور میں نے آفر ٹھکرا دی۔ زندگی نے کروٹ بدلی، سابقہ بیگم کے ساتھ چلنا مشکل تھا مزید ہوتا گیا بلآخر تعلق اختتام کو پہنچا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں یونہی بہت سے ملنے والے مواقعوں کو ٹھکراتا رہا۔ کچھ میرے پرکھوں کے دیئے اصولوں پر پورا نہیں اترتے تھے کچھ میرے معاشرے کے بنائے اصول آڑے آتے رہے اور کچھ مجھے سکھائی گئی اخلاقیات مجھے بتاتی رہیں کہ نہیں یہ کام نہیں کرنا۔ میرٹ کو نظر انداز نہیں کرنا، کسی کا حق چھین کر عہدہ نہیں لینا، کسی سے خیرات نہیں مانگنی۔

گزشتہ پندرہ سالوں میں نوکری سے لے کر بزنس تک میں ملنے والے کیسے مواقع اپنی کسوٹی پر پرکھ کر ٹھکرا دیئے کہ مجھے ان کے بدلے کہیں نہ کہیں کمپرومائز کرنا پڑتا اور جب کمپرومائز کی بات آتی ہے تو اس سے مراد میری اپنی ذات نہیں تھی، بلکہ مجھ سے وابستہ رشتوں کی تھی، یا برخلاف میرٹ کسی سفارشی پوسٹ پر لگ کر مستحق کا حق مارنے کی تھی۔

اب کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ سب کیا تھا؟ کیا زکوة کی رقم اتنی حرام تھی کہ انسانی جان بچانے کی کوشش بھی نہ کی جاتی؟ کیا اصول اور شرافت انسان کے کسی کام آتی بھی ہے؟ کیا مذہب نے انسانی جان بچانے کو مقدم رکھا ہے یا سادات گھرانوں کی روایات مقدم ہیں؟ کئی مواقع ضائع کرنے کے بعد سوچتا ہوں کہ میں اوپر اور اوپر جا سکتا تھا، مگر اپنی جیب میں سکھائی گئی قدروں و روایات کے کھوٹے سکے لیئے پھرتا رہا۔

جو لوگ ساری قدریں روندتے جاتے ہیں، وہ کہیں آگے نکل جاتے ہیں۔ اب جب اپنے گردا گرد ہائی سپیڈ معاشرے کی رفتار دیکھتا ہوں، جہاں اصول، شرافت، امانت، دیانت وغیرہ وغیرہ محض کھوکھلے الفاظ بن کر رہ گئے ہیں۔ جب یہ دیکھتا ہوں کہ بنام مذہب ہم نے کیا کیا عذاب پالے اور جھیلے ہوئے ہیں۔ اور کتنا عرصہ خواب کی سی حالت میں نسل در نسل نیند کے سفر میں بسر کر دیا ہے تو دل بھاری ہو جاتا ہے۔

آنکھ کبھی نہ کبھی کھلتی ہے، مگر جب کھلتی ہے، تب بس جون ایلیا کا شعر ہی گنگنایا جا سکتا ہے۔

آپ ایک اور نیند لے لیجیئے

قافلہ کوچ کر گیا کب کا۔

Check Also

Zarkhez Zameen Ke Zarkhez Log

By Muhammad Saqib