Police Gud Mud
پولیس گڈمڈ
سات سال قبل انہی دنوں کا ذکر ہے۔ میں جہلم سے اپنے فوٹوگرافر دوست عامر راجہ کے ہاں سے اپنے گھر سیالکوٹ واپسی کے لیے شام کو نکلا۔ میرے پاس ایک عدد کیمرا ٹرائی پوڈ تھا اور ایک شاپر بیگ میں Lee ND فلٹر تھا۔ فوٹوگرافر احباب جانتے ہیں کہ ND فلٹر شیشے کا چوکور پیس ہوتا ہے۔ جس پر کالا کوٹ ہوا ہوتا ہے، اس کے آر پار دیکھنا مشکل ہوتا ہے اور یہ فلٹر دن کی روشنی میں لانگ ایکسپوژر لینے میں مدد دیتا ہے۔
اس دن پٹرول ٹینکرز کی ہڑتال کی وجہ سے جی ٹی روڈ پر گاڑیوں کی شدید کمی تھی۔ ایک گھنٹہ انتظار کر کے جب سیالکوٹ کی کوئی گاڑی نہ مل سکی تو میں لاہور جانے والی ایک گاڑی میں بیٹھ گیا اور سوچا کہ وزیرآباد اتر جاؤں گا، وہاں سے سیالکوٹ قریب ہے تو کوئی نہ کوئی گاڑی وہاں سے مل ہی جائے گی۔ وزیر آباد اتر کر رات کے 10 بجے میں پھر گاڑی کے انتظار میں ایک گھنٹہ اکیلا کھڑا رہا۔
نہ لوگ تھے نہ ٹریفک۔ آخر ایک سفید کرولا کار خود میرے قریب آ کر رک گئی۔ اندر سے ڈرائیور نے پوچھا کہ کہاں جانا ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ سیالکوٹ جانا ہے تو بولا بیٹھ جاو، گاڑی نہیں ملنی، آج پٹرول کی کمی ہے۔ جب میں نے اس سے پیسے پوچھے تو بولا کہ جتنے ہیں دے دینا، پھر بولا چلو ایک ہزار دے دینا۔ میں نے سوچا کہ ایک ہزار سیالکوٹ جانے کے لئے ایسے موقعہ پر بہت کم ریٹ ہے اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔
گاڑی چلی تو ڈرائیور بولا کہ باو جی پولیس ناکہ آ رہا ہے، اگر کسی نے روکا تو آپ نے بولنا ہے کہ یہ گاڑی میں گجرات سے رینٹ پر لے کر سیالکوٹ جا رہا ہوں۔ مجھے اس وقت کچھ سمجھ نہ آئی کہ ڈرائیور مجھے ایسا کہنے کو کیوں کہہ رہا ہے۔ میں نے عام بات سمجھتے ہوئے اسے کہا ٹھیک ہے، کوئی مسئلہ نہیں۔ ناکے پر گاڑی روک لی گئی۔ پولیس کو شاید پہلے سے مخبری تھی۔
مجھے انہوں نے باہر نکالا، تلاشی لی، پھر گاڑی کی ڈکی کھلوائی تو اندر سے شراب کی دو درجن بوتلیں نکل آئیں اور میرے منہ سے بس اتنا ہی نکلا کہ "وڑ گئے" میں نے ان کو لاکھ سمجھانا چاہا کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں مجھے تو اس شخص نے وزیر آباد سے لفٹ دی وغیرہ وغیرہ، مگر پولیس کہاں سمجھتی ہے۔ رات کے ساڑھے بارہ کا وقت ہو گا۔
میں نے سوچا اپنے کسی تعلق والے کو کال کرنے سے پہلے تھانے جا کر ایس ایچ او سے سکون سے بات کروں شاید وہی سمجھ جائے۔ تھانے پہنچے تو معلوم ہوا ایس ایچ او صاحب کہیں راؤنڈ پر ہیں، چنانچہ انتظار کرنا ہو گا۔ مجھ سے موبائل فون لے لیا گیا اور ڈرائیور کو انہوں نے حوالات میں ڈال دیا۔ انتظار کرتے کرتے رات دو بجے ایس ایچ او آیا۔ ایس ایچ او انتہائی عجب کردار تھا۔
اس نے غور سے میرا جائزہ لیا۔ شناختی کارڈ دیکھا اور مجھ سے میرے بارے پوچھنے لگا۔ میں نے اسے تفصیل سے اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ مجھے میرا فون دیں تو آپ کی ڈی سی او سیالکوٹ سے بات کروا دوں وہ مجھے ذاتی طور پر جانتے ہیں یا کسی آرمی آفیسر سے بات کروا دوں یا کسی ایجنسی کے بندے سے۔ میں ایک فنکار ہوں اس معاملے میں بس لفٹ کے چکر میں پھنس گیا ہوں۔
آپ ڈان یا جنگ کی ویب ہی دیکھ لیں، میں کالم کار ہوں وغیرہ وغیرہ۔ وہ سب سنتا رہا پھر بولا، یہ اسنائپر گن لگانے والا اسٹینڈ کیا کر رہا ہے تمہارے پاس؟ مجھے چکر آ گیا میں نے جواب دیا حضور میں بتا چکا ہوں کہ میں فوٹوگرافر ہوں یہ کیمرا ٹرائی پوڈ ہے، گن والا اسٹینڈ نہیں۔ اس نے ٹرائی پوڈ کو بغور دو تین منٹ اوپر نیچے آگے پیچھے سے دیکھا اور بولا" کیمرا لگا کر دکھاؤ اس پر۔
میں نے کہا سرکار کیمرا تو نہیں ہے، ابھی تو میں دوست کے ہاں سے ٹرائی پوڈ ہی لے کر جا رہا تھا۔ کیمرا تو گھر پڑا ہے۔ اس نے شاپر بیگ سے فلٹر نکالا اور اسے دیکھ کر بولا، یہ مشکوک سا شیشہ ہے، کس کام آتا ہے یہ؟ ایسا ویلڈنگ والوں کے پاس ہوتا ہے تا کہ چنگاڑیوں کی شعائیں آنکھیں نہ خراب کریں۔ بندے تم مشکوک لگ رہے ہو۔
مجھے اندر سے ہنسی آئے اوپر سے رونا۔ اب میں سوچوں کہ ایس ایچ او کو ND فلٹر کا استعمال کیسے سمجھاؤں اس کو کیسے بتاؤں کہ لانگ ایکسپوژر کیا ہوتا ہے۔ مجھ سے جو بن پڑا میں اسے سمجھانے لگا، مگر وہ کہاں سمجھتا بیچ میں بول پڑا " اسنائپر گن کدھر ہے۔ صاف صاف بتا دو ورنہ میں نے اندر کیا تو صبح تک خود ہی سب اگل دو گے۔
میں نے اسے لاکھ کہا میرا موبائل دو میں تمہیں اپنی ضمانتیں دوں، تمہارے آفیسرز سے بات کرواؤں تمہاری مگر اس نے نہ سنی، اتنے میں حوالات کے اندر سے ڈرائیور بول پڑا کہ اسے جانے دیں یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، میں نے اسے لفٹ دے کر پھنسا دیا ہے۔ مگر یہ بھی بے سود رہا، ایس ایچ او نے اسے گندی گالیاں بک کر چپ کروا دیا اور بولا "یہ تمہارا باس لگ رہا ہے۔
بوتلیں بھی اس کی ہیں اور دہشت گردی کا سامان بھی اس کا ہے۔ میں اپ سیٹ بیٹھا خود کو کوستا رہا۔ صبح کے تین بج رہے تھے۔ جب ایس ایچ او کو نہ جانے کیا سوجھا۔ اس نے موبائل میری طرف کیا اور بولا "لو ملاؤ کال اور بات کرواؤ میری۔ میں نے ڈی سی او سیالکوٹ مجاہد شیر دل کا نمبر ملایا، مگر رات کے تین بجے وہ سوئے ہوئے تھے انہوں نے نہیں اٹھایا۔
میں نے پھر اپنے ایک عزیز بریگیڈیئر صاحب کو ڈائل کیا وہاں سے بھی کال اٹینڈ نہ ہو سکی۔ رات کے اس پہر سب سوئے ہوتے ہیں کون اٹھاتا۔ آخر کار میں نے ایجنسی کے دوست لاہور ونگ کے ہیڈ کرنل اسد کو ملایا انہوں نے کال اٹھا لی۔ ساری صورتحال ان کو بتائی پہلے تو کرنل صاحب ہنسے بہت پھر بولے تھانے کا نمبر دو۔ ان کو ایس ایچ او سے پوچھ کر نمبر لکھوایا۔
کچھ لمحوں بعد تھانے کے سرکاری فون پر سرکاری کال آئی اور اس کال کے بعد ایس ایچ او نے مجھے چائے پلوائی، لہجہ درست کیا اور انتہائی معذرت خواہ لہجے میں مجھے صبح کے ساڑھے چار بجے اس نے نہ صرف رخصت کیا بلکہ سڑک پر جاتی ایک پرائیویٹ گاڑی روک کر جو سیالکوٹ جا رہی تھی، اس میں مجھے ایڈجسٹ کروا دیا۔ صبح ساڑھے پانچ میں گھر پہنچا۔
بیگم نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو میرے منہ سے یہی نکلا، ہاتھ پر موجود سفر کی ریکھاؤں میں شب بسری کو کہیں تھانے کا اسٹاپ بھی تھا" بستر پر لیٹ کر آدھ گھنٹہ خود پر ہنسا اور پھر نیند نازل ہو گئی۔ اس صبح کے خواب میں فوٹوگرافی اور پولیس گڈمڈ ہو کر آئے۔