Phalon Ka Be Taaj Badshah
پھلوں کا بے تاج بادشاہ

چچا غالب نے کہا تھا کہ آم ہوں اور بہت سے ہوں۔ یہ پھلوں کا بے تاج بادشاہ ہے۔ آپ چاہیں تو حسبِ الفت یا حسبِ رغبت اسے پھلوں کا فیلڈ مارشل یا پیٹرن انچیف کہہ سکتے ہیں۔ اب تو وہ دور لَد گئے جب میں چار پانچ کلو آم ٹھنڈے پانی میں ڈبو کر کپڑے اتار دیتا۔ بنیان اور شارٹس میں آم کھانے (دراصل چوپنے) کا جو سواد ہے وہ مہذب انداز میں کہاں۔
صاحبو! آم اور فالودہ ایسی شے ہیں جو تمیز و تہذیب کے دائرے میں رہ کر نہیں کھائی جا سکتیں۔ میرا ان میزبانوں کو سلامی دینے کا دل کرتا ہے جو ثابت یا لمبی قاشوں میں کٹے آم سامنے رکھ دیتے ہیں کہ کھایئے۔ لیڈیز اینڈ جینٹلمین، آم کا سارا لطف ہی اکیلے اور بدتمیزی سے کھانے میں ہے۔
وہ بھی کیا دور تھا جب ذیابیطس لاحق ہونے کا انکشاف نہیں ہوا تھا۔ گرمیوں میں آموں کی اس قدر اِن پُٹ رہتی کہ آؤٹ پُٹ بھی گہری زرد یا شوخ پیلی ہوتی۔ بس بہانہ چاہئیے ہوتا تھا اور بہانہ ہم دوست کولیگ مل کر ڈھونڈ لیتے تھے۔ کبھی کسی کے گاؤں ٹیوب ویل میں نہانے جا رہے ہیں اور ٹیوب ویل کے یخ پانیوں میں ڈبکیاں لگاتے ساتھ ساتھ آم بھی انہی پانیوں میں تیرتے ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔ کچھ ماہ قبل ایک محفل میں گل نوخیز اختر میرے ساتھ بیٹھے تھے۔ نجانے کیسے آموں کا ذکر آ گیا۔ گل نوخیز نے وہیں بیٹھے مجھے اپنی جوانی کا قصہ سنایا اور ہم ہنس ہنس کر دہرے ہو گئے۔ جوانی سب کی آموں اور ٹیوب ویلوں کی نذر ہوئی ہے۔
ایک بار ہمارے کولیگ نے دور کی کوڑی ملاتے دعوت دی کہ ان کے دور پار کے ایک چچا کا ڈیرہ نہر کے کنارے یوں ہے کہ نہر کا کنارہ ہی دراصل ڈیرے کا حصہ ہے۔ اس نے اپنے دور باہر کے چاچا کو کال ملائی۔ چاچا نے خوش ہو کر بابانگِ دہل اتنا اونچا جواب دیا کہ آواز موبائل سپیکروں سے باہر سنائی دی "آ جاؤ بھتیجو آ جاؤ۔ موج مارو۔ تواڈا اپنا ڈیرہ اے"۔
آناً فاناً منصوبہ بن گیا۔ امریکن سسٹم کے تحت ہم نے پیسے ڈالے۔ راہ میں آموں کی دو پیٹیاں خریدیں۔ نہانے کے لیے شارٹس ہمراہ رکھے اور موٹرسائیکلوں پر ڈیرے پہنچ گئے۔ چاچا نے سواگت کیا۔ وہ دو چارپائیاں نیم کے گھنے درختوں کے نیچے سجائے بیٹھے تھے۔ چند قدموں پر نہر بہہ رہی تھی۔ آموں کو ایک جال نما تھیلے میں ڈال کر رسی سے باندھ کر نہر کنارے اس کے ٹھنڈے پانی میں ڈبو دیا گیا۔ کنارے کنارے ہم بھی نہانے لگے۔ چونکہ ہم میں کوئی تیراک نہیں تھا اس لیے پانی میں اترنے کی بجائے کنارے سے نہر کا پانی کوکا کولا کی پلاسٹک بوتلوں میں بھرتے اور پھر اپنے اوپر ڈال لیتے۔
نہایاں دھویاں ہوتی رہیں۔ گپیں شپیں چلتی رہیں۔ چاچا الگ تھلگ رہا۔ وہ اپنا حقہ سلگائے بیٹھا تھا۔ ٹھنڈ ونڈ پڑ گئی تو چاچا نے آواز دیتے کہا کہ غسل خانہ بنا ہوا ہے۔ وہاں بھی ٹھنڈا یخ پانی آتا ہے۔ پہلے صاف پانی سے ایک بار غسل کر لو تاکہ کنارے کی مٹی پاؤں سے اور نہر کا گدلا پانی جسم سے صاف ہو جائے۔ غسل خانے میں سب سے پہلے ایک کولیگ گیا۔ اس کے بعد میری باری آئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اندر ٹوٹی کے نیچے پانی سے بھرا ٹب اور نہانے والا بڑا مگا پڑا ہے مگر اوپر ایک بڑی سی شیلف ہے جس پر لگ بھگ تیس پینتس صابن کھُلے پڑے ہیں۔
ان صابنوں میں لکس، امپریل لیدر، پامولیو اور نجانے کون کون سے برآنڈز تھے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ چاچے نے تیس پینتیس صابن کیوں کھلے رکھ چھوڑے ہیں۔ دماغ میں آیا کہ کوئی وجہ ہوگی اس لیے پہلے پوچھ لیا جائے کہ نہانا کس صابن سے ہے۔ اندر سے آواز لگائی "چاچا کونسے والا صابن استعمال کرنا ہے؟"۔ چاچے کا جواب آیا "جونسا مرضی کر لو۔ سب استعمال میں ہیں"۔ میں نے سوچا چاچا شاید کھسکا ہوا ہے جو اتنے صابن استعمال کرتا ہے۔ خیر ایک سے نہا لیا۔ ہم چار دوست تھے۔ چاروں نہا لیے تو آم چوسنے کی باری آئی۔ سب چارپائی پر بیٹھ گئے۔ چاچا بھی بیٹھ گیا۔
ابھی آموں کو پولا کرکے چوسنا ہی چاہتے تھے کہ ایک کولیگ نے چاچے کو کہا "چاچا یہ اندر اتنے زیادہ صابن کیوں رکھے ہوئے ہیں؟"۔ چاچے نے حقے کا کش کھینچا۔ بڑے سکون سے بولا "پُتر، کاما (ملازم) جتھے وی مردہ نوان جاندا اے او صابن وی اونوں دے دیندے نیں کہ توں ہی لے جا"۔ (میرا ڈیرے کا ملازم جہاں بھی مردہ نہلوانے جاتا ہے وہ صابن بھی اسے ہی دے دیتے ہیں)۔ بس یہ سننا تھا کہ آموں کی مٹھاس بکبکی ہوگئی۔ اول اول تو ہنسی آئی۔ چاچا بھی مل کر ہنستا رہا۔ بعد میں عجب سا احساس ہونے لگا چنانچہ واپسی پر ہم نے اپنے اپنے گھر پہنچ کر پھر سے غسل کیا۔
ذکر ہو رہا تھا چچا غالب کی آموں سے محبت کا۔ ایک مرتبہ غالب مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ آموں کے موسم میں شاہی باغ میں ٹہل رہے تھے۔ وہاں آم کے پیڑ آموں سے لدے ہوئے تھے۔ مرزا بار بار آموں کی جانب دیکھ رہے تھے۔ بادشاہ نے پوچھا "مرزا اس قدر غور سے کیا دیکھتے ہو؟"۔ مرزا نے ہاتھ باندھ کرعرض کیا "حضور! اس کو دیکھتا ہوں کہ کسی دانے پر میرا اور میرے باپ دادا کا نام بھی لکھا ہے یا نہیں"۔ اس باغ کا آم بادشاہ یا سلاطین یا بیگمات کے علاوہ کسی کو میسر نہیں تھا لیکن مرزا کے اس جواب پر بادشاہ مسکرایا اور اسی روزعمدہ آموں کی پیٹی مرزا غالب کو بھجوا دی۔
جنوبی پنجاب میں بستے دوستوں کو کہنا چاہوں گا کہ آپ بھی آجکل میں باغوں کا چکر لگا کر دیکھ لیں شاید میرا نام بھی کسی دانے پر لکھا ہو۔ بعد از جنوبی پنجاب کے دوستوں کی نذر دو اشعار بھی پیش کرنا چاہوں گا۔ توجہ
تھک گیا میں کرتے کرتے یاد تجھ کو
اب تجھے میں یاد آنا چاہتا ہوں
آخری ہچکی تیری پیٹی پہ آئے
موت بھی میں آمیانہ چاہتا ہوں