Pehle Ka Aur Ab Ka Ehtram e Ramzan
پہلے کا اور اب کا احترامِ رمضان
زمانہ قدیم کی بات نہیں، یہی دو دہائیاں پیچھے تلک میرے لڑکپن میں رمضان کا مہینہ کاٹن کے کرتے پاجامے یا شلوار قمیض میں آتا تھا۔ تب رمضان میں ناچ گانا ہر شکل میں رضاکارانہ بند ہو جاتا تھا بس ڈھول پیٹنے کا رواج تھا وہ بھی سحری کے اوقات میں۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ رمضان بنا ہی اچھل کود، ناچ گانے کے لیے ہے۔
پہلے کے لوگ سمجھتے تھے کہ رمضان ایک سالانہ تربیتی ورکشاپ ہے جس میں نفس کو لگام دینے، دوسرے کی بھوک و پیاس کا کرب محسوس کرنے، انسانوں کی حاجت روائی، دل کی صفائی اور روح کی بھرائی کی تربیت ہوتی ہے۔ مگر اب پتہ چلا کہ رمضان تو دراصل نفس کو موٹا کرنے، اشیا کی ہوس بڑھانے، زیادہ سے زیادہ مال اور منافع جمع کرنے کی صنعت ہے۔ پوری پوری افطاری پیٹ میں رکھ لینے، رات بھر جاگنے اور سحری پر معدہ اور حلق ایک کرکے دن بھر خراٹے لینے کا مہینہ ہے تاکہ روزہ نہ لگے۔
پہلے کے بزرگ بتاتے تھے کہ دیکھو شیطان کو رمضان میں ایک ماہ کے لیے بند کر دیا جاتا ہے تاکہ تم عبادات کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا جتنا ثواب سمیٹ سکتے ہو بلا کسی ابلیسی مداخلت کے سمیٹ لو۔ مگر اب لگتا ہے کہ شیطان قید تو ہے پر ٹی وی کے کھانچے کی جیل میں۔ ایسے ایسے عالمانہ سوانگ بھرتا ہے، نفس کے غلاموں کو ایسی ایسی ٹوپیاں پہناتا ہے کہ یہی ناپتے رہ جاؤ کہ غلط کیا ہے اور صحیح کیا ہے۔ تزکیہِ نفس کیا ہے اور نفسا نفسی کیا ہے۔
پہلے متوسط گھرانوں میں اتنی افطار تیار ہوتی تھی کہ آدھی خاموشی کے ساتھ غریب ہمسائیوں کے ہاں پہنچ جائے یا در کھٹکٹانے والے ضرورت مندوں میں بانٹ دی جائے۔ بچوں کو گھر کے بڑے تاکید کرتے تھے کہ شرفاء گھر پر روزہ کھولتے ہیں یا پھر محلے کی مسجد میں۔ مگر اب پتہ چلا کہ روزہ تو دراصل رکھا ہی اس لیے جاتا ہے کہ ریسٹورنٹ یا افطار پارٹی میں کھولا جائے۔ جس کی افطار پارٹی میں جتنے متمول دمکتے چہرے اتنی ہی واہ واہ۔ اور پھر نادار ضرورت مند چہرے دیکھ کر موڈ بھی خراب نہیں ہوتا۔
پہلے بچوں کو یہ سمجھایا جاتا تھا کہ تراویح کا مقصد یہ ہے کہ سال بھر زندگی کے جھمیلوں میں اتنا وقت نہیں مل پاتا کہ قرآن کو سمجھ کر سنا جائے۔ چنانچہ رمضان کی ہر شب جب امام صاحب ٹھہر ٹھہر کے قرات فرمائیں گے تو مقتدی کو لفظ کی درست ادائیگی سمجھا پائیں گے۔ مگر جدید دور میں"وقت ہی قیمت ہے" کے اصول پر قاری صاحب بلٹ ٹرین کی رفتار سے تروایح پڑھاتے ہیں۔ بھلے سمجھ میں آئے نہ آئے لیکن تراویح تو ہوگئی ناں۔
اگر زور ہے تو اس پر ہے کہ کوئی دن میں کھاتا پیتا نظر نہ آئے ورنہ کڑی سزا ملے گی۔ ضعیف، بچہ، بیمار، حاملہ عورت، مسافر، غیر مسلم اپنی سلامتی کے خود ذمہ دار ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی جوشیلے کو اپنی جانب لپکتے دیکھیں اور جب تک آپ اسے سلوکِ نبوت اور بعض حالتوں میں روزے کی چھوٹ کا حوالہ دینا شروع کریں تب تک آپ کو دو چار ہاتھ پڑ چکے ہوں۔ احترامِ رمضان کے بارے میں شریعت بھلے کچھ بھی کہے مگر ملکی قانون بلا امتیاز سب کو ایک لاٹھی سے ہانکتا ہے اور قانون تو بہرحال اندھا ہوتا ہے اور اندھے کی لاٹھی کے آگے کون ٹھہر سکتا ہے۔
پہلے جس عبادت گزار کو جس مسجد میں جہاں جگہ ملتی رمضان کے آخری دس روز وہیں اعتکاف میں بیٹھ جاتا۔ مگر اب ایگزیکٹو اور وی وی آئی پی اعتکاف کا دور ہے۔ اب رمضان میں ٹریول ایجنٹس کو سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی کیونکہ اشرافیہ آخری عشرہ مسجدِ نبوی میں گزارنا چاہتے ہیں۔ وہاں بھی خدا کو پورا وقت دینے کے بجائے اعتکافی سیلفیاں پوسٹ کرتے ہیں اور سوشل میڈیا بھی اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔
پہلے اعتکاف یکسو حاضری ہوا کرتا تھا اب سٹیٹس سمبل ہے۔ پہلے زمانے میں ان حرکتوں کو ریاکاری کہا جاتا تھا اب کچھ نہیں کہا جاتا۔ پہلے افطار پر سجے دسترخوان کی تصاویر پوسٹنے کا رواج نہیں تھا۔ اب اس کے بنا افطار ادھوری معلوم ہوتی ہے۔ مگر بے شمار مسلمان اب بھی خاموشی سے خیرات و اعتکاف و انتیس یا تیس روزہ تراویح پر یقین رکھتے ہیں۔ عباداتی اشتہار بازی سے کوسوں دور یہی تو لوگ ہیں جو رمضان کی آبرو ہیں۔ کوئی تو ہیں جن کے سبب نظام کائنات گردش میں ہے۔ ابھی اس نظام کو لپیٹنے اور صُورِ اسرافیل کا وقت نہیں آیا۔ ایسوں کی بابت احمد نوید کا شعر ہے۔
کیا فقر ہے کہ نانِ جویں توڑتے ہوئے
لرزے جو اُس کا ہاتھ، لرز جائے کائنات۔