Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Pee Ja Ayyam Ki Talkhi

Pee Ja Ayyam Ki Talkhi

پی جا ایّام کی تلخی

چاچا سرعام آرمی چیف پر لعنت اور مریم نواز کو گندی گالی دے گا تو اس عمل کی کوئی جسٹیفکیشن نہیں ہو سکتی۔ آپ گھر میں، دوستوں میں اپنی محفل میں جو مرضی کریں اور بولیں۔ پبلک فورمز پر، ویڈیوز میں اور تحریر میں گالیاں نامناسب عمل ہے۔ گالی کوئی برداشت نہیں کرتا۔ نہ میں اس عمل کو اچھا سمجھتا ہوں نہ ہی حکومت کی جانب سے اس چاچا کا سافٹ وئیر اپڈیٹ کرنا اچھا سمجھتا ہوں۔ حکومتوں کو اتنا تنگ نظر اور چھوٹے کردار کا نہیں ہونا چاہئیے کہ وہ کسی راہ چلتے شہری کی بیہودگی پر ردعمل دے۔ یہ حکومتوں کو سوٹ نہیں کرتا۔ یہ بھی جبر ہے۔ یہ بھی ویسا ہی گھٹیا عمل ہے جیسا چاچا کر رہا تھا۔

مسئلہ یہ ہے عوام غربت، بیروزگاری، جبر کے نظام سے تنگ ہے۔ وہ آپے سے باہر ہوتے دیر نہیں لگاتی۔ ان کو سوک سینس سکھائی ہی نہیں گئی۔ اپنی بات کہنے کا ڈھب عوام کو نہیں آتا۔ اس کی وجوہات میں تعلیم سے دوری، اخلافی تربیت کی کمی اور ریاست کی جانب سے سوتیلی ماں سا سلوک ہے۔ حکومت یا حکمرانوں کو اس حد تک نہیں جانا چاہئیے جس حد تک وہ چلے جاتے ہیں۔ ریاست کے آپریٹ کرنے کا میکانیزم یہ نہیں ہوتا۔ پر یہاں کیا لکھا جائے اور کہا جائے۔ کس سے کہا جائے۔ عوام کے شعور میں گالی بھری گئی ہے اور حکومت سافٹ وئیر اپڈیٹ میں لگی ہوئی ہے۔ جہاں اس قدر جہالت پھیلی ہو وہاں نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔

مسخ شدہ تاریخ، مسخ شدہ ہائبرڈ حکومتیں، گھول کے پلایا ہوا مسخ شدہ عوامی شعور اور سوشل میڈیا پر تنقید کے نام پر گھٹیاپہ۔

ایک طرف مسلط شدہ حکومتیں ہیں جن کے بارے کہا جاتا ہے عوامی شعور چونکہ کپتان زدہ ہے اس لیے سسٹم نے مجبور ہو کر اپنی راہ نکالی ہے۔ جمہوریت گئی تیل لینے پاکستان کو کپتان زدہ ہونے سے بچانا ہے اور پھر یہ حکومت جیسے تیسے آئی چلیں آ گئی۔ مگر دھندا وہی پرانا ہے۔ کاسمیٹیکس پر توجہ ہے۔ نون لیگ کی لاہور نواز حکومت جب آتی ہے تو شہر لاہور کی بالخصوص کاسمیٹک سرجری ضرور کرتی ہے۔ سڑکوں کا خوبصورت بنا لیں، اشاروں پر پیدل کراسنگ کے لیے بٹن لگا لیں، گرین بیلٹس بنا لیں، پلاسٹک کولیکشن کو بوتھ بنا لیں۔

جمالیات انسان کو متاثر کرتیں ہیں۔ وہ شہروں کی ہوں یا انسانوں کی ہوں۔ ضرور کریں۔ اگر ساتھ ساتھ وہ کام بھی ہو رہے ہوں جن سے قوم یا آنے والی نسلیں سنوریں تو پھر دل خوش ہوتا ہے۔ اگر سارا زور شہروں کی سجاوٹ پر ہی دینا ہے تو پھر سوچنے سمجھنے والا کوئی باشعور ذہن آنکھوں کو لُبھانے والے اور دل کو للچانے والے ایسے کاٹن کینڈی پراجیکٹس سے خوش نہیں ہو سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ نون لیگ ہمیشہ سے وہی کام کرتی آئی ہے جس کی visual representation ہو۔ جو بار بار نظر آئیں۔ انسانی نفسیات میں گھس جائیں۔ اسی سبب آٹے کے تھیلے تا قومی نصاب میں اپنے مبارک چہروں کی رونمائی بھی ضروری سمجھتے ہیں۔

اگر کچھ توجہ تھانہ کلچر سنوارنے۔ پٹوار خانے کو سنوارنے۔ کچہری کلچر کو سنوارنے اور بلدیہ کو منظم بنانے، نظام تعلیم کو نئی اور پختہ بنیادوں پر استوار کرنے، میرٹ کا شفاف نظام لانے، پر دی جائے تو پھر سجاوٹ بھی دل کو بھائے گی۔ لاہور شہر کا پانی سیوریج سسٹم سے مل رہا ہے۔ پائپ لیکجز کے سبب گھروں میں زہریلا پانی آتا ہے۔ عوام وہی پینے پر مجبور ہیں۔ شہر بے ہنگم پھیل رہا ہے۔ فوری ضرورت اس امر کی ہے کہ لاہور کی حد بندی کی جائے۔ زرعی زمینوں پر مزید رہائشی سوسائٹیز نہ بننے دیں جائیں۔ عوامی مسائل سے ڈائریکٹ منسلک ادارہ جات کی تشکیل نو کی جائے۔ یہ وہ کام ہیں جن سے آنے والی نسلیں سنوریں گیں۔ ہمارا تو بیڑہ غرق ہو چکا۔ اپنے بچوں کا ہی سوچ لیں۔ اس طرف توجہ ہو تو دل بھی شہر کی رونق اور ڈیکوریشن سے خوش ہو۔ مگر ہنوز دلی دور است۔ ہاں شہروں میں غیر قانونی تجاوزات کے خلاف مہم بہت اچھی ہے۔ یہ ضروری کام تھا۔ اس مہم پر ضرور کہوں گا ویل ڈن۔

دوسری طرف وہ طبقہ ہے جس کا ہیرو چاچا ہے۔ جن کی زبان چاچا بول رہا تھا۔ پھر سے احتجاج کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ اپنے کارکنان کو بتی کے پیچھے لگایا جا رہا ہے۔ خان صاحب کے بیٹے اول تو آنے کے نہیں اور بالفرض آ جائیں تو کیا کر لیں گے۔ احتجاج آپ سو بار کر لیں اس کا منطقی انجام کیا ہے؟ کیا جلوسوں، دھرنوں سے رہائی ممکن ہو سکتی ہے یا جیل توڑ کر کسی کو نکالا جا سکتا ہے۔ وہی قیادت ہے جو بار بار لوگوں کو فورسز کے سامنے چھوڑ کر پتلی گلی سے نکل جاتی ہے۔ اب بھی وہی باتیں کر رہے ہیں "نوے دنوں میں عمران خان کو رہا کرائیں گے یا سیاست چھوڑ دیں گے"۔ اللہ جانے انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نوے دنوں کی کمیٹی ڈالی ہے یا کیا ہے۔ مجھے تو اس نان سینس کی سمجھ نہیں آ پاتی۔

ایک جانب غیر جمہوری سسٹم اور دوسری جانب عاشقوں کا دیواروں سے ٹکریں مارتا ٹولہ۔ ان کے بیچ میں کولیٹرل ڈیمج عوام۔ کوئی سنجیدہ نہیں، کوئی سوچتا نہیں۔ جس کو کرسی مل چکی وہ اس کو پلستر کرنے میں لگے ہوئے۔ جن کو واپس اقتدار چاہئیے وہ ایک صوبے میں مسلسل اقتدار میں بیٹھے ہیں اور اس صوبے کی حالت زار پر کیا لکھنا۔ اس واسطے اب لمبے لمبے خاموشی کے وقفے آنے لگے ہیں۔ لکھنے والے لکھ لکھ کر تھک رہے ہیں۔ خون جلا کر نڈھال ہو رہے ہیں۔ کبھی جل کڑھ کر ذہن کہتا ہے عوام، نظام اور سیاسی و عسکری اشرافیہ کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ کیا فائدہ ایسے موضوعات پر قلمی ہوا بازی کرنے کا جو سادہ الف یا الف مد آ یا ف، ن اور ع سے شروع ہوتے ہوں۔

پی جا ایّام کی تلخی کو بھی ہنس کے ناصرؔ
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam