Pakistani Siasat Ke Teen Kirdar
پاکستانی سیاسیت کت تین کردار

ہماری سیاست کے تین اہم کردار ہیں۔ تینوں لیڈران میں خصوصی بات یہ ہے کہ ان کی کوئی نہ کوئی عادت "سو یونیک" ہے جو انہیں دیگروں سے منفرد بناتی ہے۔
تین بار کے وزیراعظم اور چوتھی بار کے کبوتر باز میاں نواز شریف صاحب کو جو بات سب سے الگ بناتی ہے وہ ہے ان کی عادتِ مہم جوئی۔ آپ میاں صاحب کے تینوں ادوار دیکھ لیں اور سلطان راہی مرحوم کی فلمیں دیکھ لیں۔ تینوں ادوار گواہ ہیں کہ میاں صاحب کسی بھی سیاسی نوری نت کو برابر کا جوڑ تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اسی لیے وہ عادتِ مہم جوئی کی تسکین کے لیے اپنے ہی ہاتھوں بنائے باوردی بتوں کو نوری نتوں میں ڈھالتے رہے اور پھر ان سے ڈانگ سوٹا کھیلنے میں تکمیلِ شوقِ مرگ کا لطف نچوڑ لیتے۔
تین جرنیلوں کو اپنی پسند سے ترقی دے کر منتخب کیا مگر تینوں نے اپنی پسند سے رخصت کر دیا۔ میاں صاحب کرسی پر ٹک کر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ ان کی ٹانگیں مسلسل اندرونی بے چینی کے سبب ہلتی رہتیں۔ سیاسی مخالفین سے فراغت پاتے ہی جرنیل کو نوری نت میں ڈھال کر خود مولا جٹ کا روپ دھارن کر لیتے۔ مقدر دیکھئیے، جرنیلوں سے جان بچائی تو مدمقابل دوسرا مولا جٹ اُتر آیا۔ "متھے رنگ دیاں گا۔۔ میں کلا ای کافی آں"۔ خدا نے چوتھا سپہ سالار مقرر کرنے کا موقعہ دیا بھی تو چوتھے نے کبوتر اڑانے کی مشق تک محدود کرکے فارغ کر دیا۔
بڑی کمپنیاں کسی ملازم کو نکالنا چاہیں تو اسے برطرف نہیں کرتیں بلکہ ایک کونے میں بغیر کام دیے خالی میز کرسی دے دیتی ہیں تاکہ وہ جتنی دیر بیٹھنا چاہے بیٹھے، چائے وائے پیتا رہے اور بور ہو تو چلا جائے۔ چند روز میں نیم عقلمند ملازم بھی خود ہی سمجھ جاتا ہے کہ اب کمپنی کو اس کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ اردگرد کام کرتے ملازموں کی نگاہیں سوالیہ نشان بن کر اسے گھورتی رہتی ہیں۔ سو آجکل تو پھر سے میاں جی ہیں اور لندن کی ہوائیں ہیں۔ میاں صاحب کی سیاسی ہسٹری کو دیکھتے ہوئے میری ذاتی رائے بھی یہی ہے کہ میاں صاحب کو چھبیس ڈگری درجہ حرارت پر رکھا جائے تو صحتمند اور خاموش رہتے ہیں۔
روٹی، کپڑا اور مکان کے ساتھ اہلیان وطن کو اٹھارہویں آئینی ترمیم دینے والے آئین پاکستان کے سیاسی وارث دو بار کے صدر پاکستان آصف علی زرداری صاحب میں الگ بات یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہنستے رہتے ہیں۔ وللہ، میں نے کبھی ان کو اداس، نراش یا منہ لٹکائے نہیں دیکھا۔ "معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے" جیسا سنہرا جملہ کہتے وقت بھی ان کے لبوں پر مسکراہٹ تھی اور گڑھی خدا بخش میں اسٹیبلشمنٹ کو للکار کر "ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے" بولتے ہوئے بھی ان کی آنکھوں میں چمک تھی۔ مفاہمت کے بے تاج بادشاہ ایسے کہ مسکرا کر گجرات کے چوہدریوں کو گلے لگا لیں اور ہنستے ہنستے حکومت کا حصہ بنا لیں۔
ہنس ہنس کر وہ تیس سالوں سے سندھ میں حکومت کر رہے ہیں اور سندھی بھی ہنس ہنس کر انہیں حکومت دے رہے ہیں۔ اندرونِ سندھ کی پسماندگی کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے درمیان بہت سے الف لیلائی قصبے بھی پائے جاتے ہیں۔ اسی پسماندہ سندھ میں ایسے بھی علاقے ہیں جن کے موازنے میں صومالیہ بھی فرانس لگے ہے۔ یقین نہ آئے تو ضلع دادو، عمرکوٹ اور تھر پارکر وغیرہ کے اندرون دیکھ لیجیے جہاں پینے کا صاف پانی ایک مقامی دیہاتی آج بھی حسرت بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔ مگر سب کچھ زرداری صاحب کی ایک مسکراہٹ پر قربان۔
بینظیر کی شہادت کے بعد زرداری صاحب نے بروقت سوچ لیا تھا کہ زیادہ ہچر مچر نہیں کرنے کا۔ پنگا نہیں لینے کا۔ سیدھا چلنے کا۔ یس باس کرنے کا۔ چنانچہ مقتدرہ نے بھی ہنس کے گلے لگایا اور آج وہ پھر سے ہنستے مسکراتے صدر پاکستان ہیں۔
عمران خان صاحب کی جو بات ان کو دیگر سیاستدانوں سے منفرد بناتی ہے وہ ہے ان کی یک رُخی۔ کوئی اگر پسند ہے تو ضرورت سے زیادہ پسند ہے اور وہی بندہ ناپسند ہوگیا تو بے تحاشہ ناپسند ہے۔ نوے کی دہائی میں نواز شریف صاحب ان کی گڈ بک میں جب تک تھے تب تک تھے اور جب ان کے پیچھے پڑے تو "گو نواز گو" اور "اوئے نوازشریف" کے سوا کوئی دوجا جملہ نہیں نکلا۔
نوازشریف نامی مین ڈش کے ساتھ مینیو میں زرداری صاحب کو بطور سلاد رکھ لیا اور سلاد کے اوپر فضل الرحمٰن صاحب کی گارنش پھیر دی۔ اقتدار میں آئے تو جنرل باجوہ کی زلف کے ایسے اسیر ہوئے کہ ایکسٹینشن سے پاور لینے کے لیے ساری پارلیمنٹ سوئچ میں لگا دی اور پھر فیض حمید پسند آئے تو اس قدر پسند آئے اس کے لیے جنرل باجوہ سے بھی بھِڑ گئے۔ اقتدار سے رخصت ہو کر اگلے ڈیڑھ سال ان پر باجوائیت طاری رہی اور پھر نگاہِ مست کی یک رُخی جنرل عاصم منیر پر جا ٹھہری۔ اس وقت عمران خان جیل میں ہیں جب تک وہ دوبارہ وزیراعظم نہیں بن جاتے یا ان کی یک رُخی حادثاتی یا معجزاتی یا اقتداراتی طور پر تپاک میں نہیں بدل جاتی تب تک ان پر منیریت طاری رہے گی۔
لکھتے لکھتے پیرزادہ قاسم کا شعر ذہن میں آ گیا۔
اپنے خلاف فیصلہ خود ہی لکھا ہے آپ نے
ہاتھ بھی مل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

