Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Pakistan Da Matlab Ki Si

Pakistan Da Matlab Ki Si

پاکستان دا مطلب کیہہ سی

ایک اور جشنِ آزادی آیا چاہتا ہے اور جب جب یہ دن قریب آتا ہے مجھے ماضی کے اوراق سے بہت کچھ یاد آنے لگتا ہے۔ محمد علی جناح کی موت و حیات کے حوالے سے ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے ایک کتاب "مائی برادر" یعنی "میرا بھائی" لکھی لیکن اشاعت سے قبل اس کے چند صفحے غائب ہو گئے۔ یہ کارنامہ قائداعظم اکیڈمی کے روح رواں جناب شریف المجاہد نے سرانجام دیا تھا۔ جب برسوں بعد شریف المجاہد صاحب سے انٹرویو کرتے ڈان کے صحافی نے اس بابت پوچھتے ہوئے سوال کیا کہ یہ صفحات تو قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب "شہاب نامہ" مطبوعہ 1988 میں چھاپ دیے ہیں، تو انہوں نے جواب میں کہا کہ مواد حذف کروانے میں قدرت اللہ شہاب نے بنیادی کردار ادا کیا تھا اور پھر خود ہی اس حذف شدہ مواد کو اپنی کتاب میں چھاپ دیا۔

واقعہ جولائی 1948 کا ہے جب قائد اعظم علالت کی وجہ سے علاج اور آرام کے لیے زیارت میں تشریف رکھتے تھے۔ محترمہ مس فاطمہ جناح نے لکھا ہے کہ جولائی کے آخر میں ایک روز وزیراعظم نواب لیاقت علی خان اور سیکریٹری جنرل مسٹر محمد علی اچانک زیارت پہنچ گئے۔ ان کے آنے کی پہلے سے کوئی اطلاع نہ تھی۔ وزیراعظم نے ڈاکٹر الہٰی بخش سے پوچھا کہ قائداعظم کی صحت کے متعلق ان کی تشخیص کیا ہے؟ ڈاکٹر نے کہا کہ انہیں مس فاطمہ جناح نے یہاں بلایا ہے، اس لیے وہ اپنے مریض کے متعلق کوئی بات صرف انہی کو بتا سکتے ہیں۔

لیاقت خان صاحب نے زور دیا کہ "وزیر اعظم کی حیثیت سے میں قائداعظم کی صحت کے متعلق متفکر ہوں"۔ ڈاکٹر نے ادب سے جواب دیا۔ "جی ہاں، بے شک۔ لیکن میں اپنے مریض کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں بتا سکتا"۔ جب مس فاطمہ جناح نے قائد اعظم کو وزیراعظم کی آمد کی اطلاع دی، تو وہ مسکرائے اور فرمایا

"تم جانتی ہو وہ کیوں آئے ہیں؟ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میری بیماری کتنی شدید ہے اور میں کتنا عرصہ زندہ رہ سکتا ہوں۔ تم نیچے جاؤ اور پرائم منسٹر سے کہہ دو کہ میں انہیں ابھی ملوں گا"۔

مس فاطمہ جناح نے کہا "اب کافی دیر ہوگئی ہے۔ کل صبح ان سے مل لیں"۔۔ "نہیں" قائد اعظم نے فرمایا۔ "انہیں ابھی آنے دو اور بچشم خود دیکھ لینے دو"۔

وزیراعظم آدھے گھنٹے کے قریب قائداعظم کے پاس رہے۔ اس کے بعد جب مس فاطمہ اندر گئیں تو قائد اعظم بے حد تھکے ہوئے تھے۔ انہوں نے کچھ جوس مانگا اور پھر چوہدری محمد علی کو اپنے پاس بلایا۔ سیکریٹری جنرل پندرہ منٹ تک قائد اعظم کے ساتھ رہے۔ اس کے بعد مس فاطمہ جناح دوبارہ قائداعظم کے کمرے میں گئیں اور پوچھا کہ کیا وہ جوس یا کافی پینا پسند کریں گے؟

قائد اعظم نے جواب نہ دیا، کیونکہ وہ کسی سوچ میں محو تھے۔ اب ڈنر کا وقت آ گیا تھا۔ قائداعظم نے مس فاطمہ جناح سے کہا "بہتر ہے کہ تم نیچے چلی جاؤ اور ان کے ساتھ کھانا کھاؤ"۔ "نہیں" مس جناح نے اصرار کیا۔ "میں آپ کے پاس ہی بیٹھوں گی اور یہیں پر کھانا کھا لوں گی"۔ "نہیں"، قائد اعظم نے کہا، "یہ مناسب نہیں۔ وہ یہاں پر ہمارے مہمان ہیں۔ جاؤ اور ان کے ساتھ کھانا کھاؤ"۔

مس فاطمہ جناح لکھتی ہیں کہ کھانے کی میز پر انہوں نے وزیراعظم کو بڑے خوشگوار موڈ میں پایا۔ وہ پرمذاق باتیں کرتے رہے، جب کہ مس فاطمہ کا اپنا دل اپنے بھائی کے لیے خوف سے کانپ رہا تھا جو اوپر کی منزل میں بستر علالت پر اکیلے پڑے تھے۔ کھانے کے دوران چوہدری محمد علی چپ چاپ کسی سوچ میں گم رہے۔ کھانا ختم ہونے سے پہلے ہی مس فاطمہ جناح اوپر چلی گئیں۔ انہوں نے بڑے ضبط سے اپنے آنسوؤں کو روک رکھا تھا۔ قائد اعظم انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا "فطی، تمہیں ہمت سے کام لینا چاہیے۔ "

اس واقعے کے دو ڈھائی ہفتے بعد چودہ اگست کو پاکستان کی آزادی کی پہلی سالگرہ آئی۔ اپنی کمزوری صحت کے باوجود یوم پاکستان پر قائد اعظم نے قوم کے نام بڑا ولولہ انگیز پیغام جاری کیا۔ مس جناح نے اپنے مسودے میں لکھا ہے کہ یوم پاکستان کے چند روز بعد وزیر خزانہ مسٹر غلام محمد قائد اعظم سے ملنے کوئٹہ آئے۔ لنچ کے وقت جب مس فاطمہ جناح ان کے ساتھ اکیلی بیٹھی تھیں تو مسٹر غلام محمد نے کہا "مس جناح میں ایک بات آپ کو ضرور بتانا چاہتا ہوں۔ یوم پاکستان پر قائد اعظم نے قوم کے نام جو پیغام دیا تھا اسے خاطر خواہ اہمیت اور تشہیر نہیں دی گئی۔ اس کے برعکس وزیراعظم لیاقت علی خان کے پیغام کے پوسٹر چھاپ کر انہیں نہ صرف شہر شہر دیواروں پر چسپاں کیا گیا ہے بلکہ ہوائی جہازوں کے ذریعے اسے بڑے بڑے شہروں پر پھینکا بھی گیا ہے"۔ مس جناح نے یہ بات خاموشی سے سن لی۔

یہ تھی ان گمشدہ اوراق کی کہانی جو محترمہ فاطمہ جناح کی کتاب "میرا بھائی" سے حذف کر دیں گئی تھیں اور جسے بعدازاں شہاب صاحب نے "شہاب نامے" میں چھاپ دیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسی بے شمار وارداتیں ہوئی ہیں۔

ملک عزیز کی بانی قیادت کوئی آئینی ڈھانچہ تشکیل دینے اور قومی پالیسی خطوط استوار کرنے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہوگئی۔ اس ملک پر ایسی طاقتور اسٹیبلشمنٹ مسلط ہوگئی جس نے اپنی برتری قائم رکھنے کے لئے جمہوری و سیاسی عمل سے عوامی قیادت کو پیدا ہی نہیں ہونے دیا۔ تمام پالیسیز بیرکوں سے وارد ہوتی رہیں اور سیاسی قیادت کو گملوں میں اُگایا جاتا رہا۔ پھر سیاسی قیادت کو بے چون و چراں ان پالیسیوں پر چلنا پڑا۔

میں طے نہیں کر پا رہا کہ کون سا دکھ زیادہ بڑا ہے۔ جناح کا دکھ یا بابائے قوم جناح صاحب کی وراثت اس ملک عزیز کی پامالی کا دکھ۔ ویسے سوال تو یہ بھی ہے کہ کون سے بابائے قوم اور کون سی وراثت؟

وہی بابائے قوم ناں جن کے تصورِ ریاست و حکومت کو ان کی زندگی میں ہی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا اور خود انہیں بھی ایک آئینی ڈھانچا سمجھ کر اس پرفضا قیدِ تنہائی میں ڈال دیا گیا جہاں ہمشیرہ، ایک ذاتی معالج اور چناروں سے ٹکراتی ہوا کے سوا کوئی نہ تھا۔

وہی جناح ناں جس کی تصویر پہلے کرنسی نوٹوں پر چھاپی گئی اور پھر ان نوٹوں سے ضمیر ٹریڈنگ کمپنی کھول لی گئی۔ جناح کیپ بلیک اینڈ وائٹ فلمی دلالوں نے اڑس لی۔ بالآخر اس بے چاری نے بھی قوالوں کے ماتھے پر پناہ حاصل کی۔ ان کی شیروانی بھانت بھانت کے آمروں میں بٹ بٹا گئی۔ ان کے فرمودات تئیس مارچ، چودہ اگست، گیارہ ستمبر اور پچیس دسمبر کے بوسیدہ سرکاری پیغامات اور فرسودہ اخباری ضمیموں کی جیل میں تاحیات قید ہو کر رہ گئے۔

تب سے اب تک کوئی کباڑی جناح کے خوابوں کو نیا پاکستان، کوئی چھابڑی والا انقلابی پاکستان، کوئی کنگلا اسلامی پاکستان اور کوئی دو نمبریا روشن پاکستان کہہ کر بیچ رہا ہے اور پیٹ پال رہا ہے۔ کن لوگوں نے نظریہ پاکستان کو پوری قوم سے ٹھگ لیا اور پھر اُس پر لمبی چوڑی مارکیٹنگ کی؟ ایوب خان کس طرح فیلڈ مارشل بنا اور اس کے مشیروں نے ادب اور ادیبوں کو خریدنے کے لئے کس طرح کے گماشتے مقرر کیے۔ اُس نے شاہی قلعے میں حسن ناصر کو کیسے شہید کیا۔ کس طرح دانشوروں، سیاست دانوں اور باضمیر لوگوں کو ساری رات جگانے کے لئے حربے استعمال کیے۔ ان کے ناخن کس طرح پلاس سے اکھاڑ ے گئے۔ کس طرح ان کی چیخوں کو دبانے کے لئے اقدامات کیے گئے۔ ضیا الحق نے کس طرح ادیبوں، شاعروں، وکیلوں (اُس وقت کے وکیلوں) کسانوں اور صحافیوں کے ننگے جسموں پر کوڑوں کے ساتھ گرم پانی کی بوچھاڑ کروائی۔ کس طرح یہ لوگ پاگل ہوئے اور اُن کے گھر والوں نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اداکارہ شبنم ریپ کیس میں راتوں رات ضیاء الحق نے پھانسی کے مجرموں کو کس طرح معافی دلوائی۔ کون شبنم کے گھر گیا اور اُس سے معافی نامہ لے کر آیا؟

کس نے ملک دولخت کر دیا؟ شیخ مجیب کے ٹرائل کا کیا بنا؟ کہاں گئی اس کی رپورٹ؟ اس قوم کو فیض کی نظم "ڈھاکہ سے واپسی پر " کے اس مصرعے کا مطلب سمجھنا چاہئیے "خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد"۔ ناصر کاظمی کی غزل بھی گنگنانی چاہئیے تھی جو 1971 کے بعد لکھی گئی۔ "وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے "۔ قرۃالعین حیدر، بڑے غلام علی خان اور ساحر لدھیانوی پاکستان چھوڑ کر کیوں چلے گئے اور سجاد ظہیر کو مچھ جیل میں کیوں بند کیا گیا؟ منٹو بمبئے سے پاکستان آیا تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟

جونیجو لیگ اور جونیجو کے ساتھ کیا ہوا؟ آئی جے آئی کیسے بن گئی؟ نوے کی دہائی 58 2B آرٹیکل کی تلوار سے کیوں چھلنی ہوتی رہی؟ مشرف کا "روشن پاکستان" کیا تھا؟ جنرل کیانی کی ڈیل کیا تھی اور چارٹر آف ڈیموکریسی کی خلاف ورزی کس نے شروع کی تھی؟ فیض آباد دھرنا اور 126 دن کا دھرنا کس کی سیٹی پر آیا اور کس ایمپائر کی انگلی کے انتظار میں رہا؟ کیسے پانامہ سے اقامہ نکلا؟ کیوں 2018 میں آر ٹی ایس بیٹھ گیا اور کیسے 2024 میں فارم سینتالیس وجود میں آئے؟

سوال تو بیشمار ہیں۔ اتنے کہ میں لکھتے لکھتے تھک جاؤں گا اور ہر سوال کے جواب میں ایک کتاب کا مضمون نکل آئے گا۔ مگر سوال اُٹھانا والا ہی اُٹھایا جا سکتا ہے۔ جان کی امان پائیں تو کیا ہم اتنا کہہ سکتے ہیں جو ہوا غلط ہوا؟ جو ہو رہا ہے غلط ہو رہا ہے؟ اور آگے جو ہوتا نظر آ رہا ہے وہ بھی غلط لگ رہا ہے۔ اگر اتنا کہنے کی بھی اجازت نہیں تو آپ سب کو میری جانب سے آزادی بہت مبارک ہو۔ البتہ اس پرمسرت موقعہ پر میں منو بھائی کی نظم کا ایک ٹکرا بھی ضرور سنانا چاہوں گا اور پھر اجازت چاہوں گا۔

درداں کولوں لئو شہادت
زخماں تو تصدیق کرا لئو

ساڈے ایس مقدمے دے وچ
سانوں وی تے گواہ بنا لئو

آزادی دی پہلی فجر توں لے کے ہن تک
اس دھرتی تے ڈہلے ہوئے

سارے لہو دی قسم چکا لئو
سچ بولاں گے

سچ کھولاں گے
سچ دے باہجھ نہ کجھ پھولاں گے

لا الہ الا اللہ نوں منن والے
بھکھے، ننگے، بے گھر لوکی

فٹ پاتھاں تے لیٹے ہوئے
سوچ رہے نئیں

پاکستان دا مطلب کیہہ سی۔۔
جیڑا تھاں توں ہل نئیں سکدا

کدی اگاں نوں چل نئیں سکدا
جیڑا اپنے ویلے کولوں ڈر جاندا اے

اوسے ویلے مر جاندا اے
جیڑا جتھے رک جاندا اے

اوسے تھاں تے مک جاندا اے۔۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari