Nosrbazon Se Bachen
نوسربازوں سے بچیں

کچھ عرصہ قبل میں لاہور ٹھوکر نیاز بیگ سے موٹروے پر چڑھ کر گاڑی سائیڈ پر لگا کر اپنی میڈم باس کی کال سن رہا تھا۔ کال ختم ہوئی تو ایک بزرگ جن کی عمر ہوگی لگ بھگ 60 سال۔ پینٹ شرٹ و سویٹر پہنے تھے۔ حلیہ بہت ڈیسنٹ۔ میری گاڑی کے پسنجر سائیڈ کا شیشہ knock کرنے لگے۔ میں نے شیشہ اتارا تو بولے "بیٹا مجھے کوٹ عبدالمالک تک جانا ہے، اگر آپ مجھے وہاں اتار دیں تو آپ کا شکریہ"۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے ایک کارڈ جو انہوں نے ہاتھ میں تھام رکھا تھا وہ آگے بڑھایا اور پھر بولے "بیٹا میں فوج کا رئیٹائرڈ کمانڈو ہو۔ سرگودھا سے تعلق ہے اور سرگودھا ہی سروس رہی"۔
بزرگ تھے لہذا میں نے ان بزرگوں کو اپنے ساتھ پسنجر سیٹ پر بٹھا لیا۔ گاڑی چلی تو بولے "آپ کا گڈ نیم بیٹا؟"۔ میں نے کہا "سید مہدی بخاری"۔۔ ایکدم انہوں نے مصافحہ کرنے کو ہاتھ آگے بڑھاتے اور انتہائی خوش ہوتے کہا "ماشاءاللہ بیٹا، میں سید عامر بخاری۔۔ یہ تو اتفاق ہوگیا۔ آپ بھی شاہ جی ہو بیٹا، میں بھی بخاری سید ہوں"۔۔ ساتھ ہی مجھے دعائیں دینے لگے۔ میں نے مصافحہ کیا اور دعائیں دینے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
پھر بولے "بیٹا بس ایک مجبوری بن گئی ہے۔ دعا کریں وہ ختم ہو جائے۔ بیٹا میں سرگودھا سے یہاں ایک رشتے دار کے ہاں آیا ہوں۔ میری بیگم شوکت خانم ہسپتال میں داخل ہے۔ اس کو بریسٹ کینسر تھا بیٹا۔ اس کا آپریشن ہوا ہے۔ بس کل ہسپتال سے چھٹی مل جائے گی۔ کینسر کا علاج بیٹے نے خود کروایا ہے۔ وہ بھی آپ جتنا ہی ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ سید صدقہ خیرات و زکوۃ نہیں لیتے، ان پر حرام ہے۔ بس بیٹا آج صبح سے پریشانی تھی کہ سرگودھا واپس جانے کے لئے فری ایمبولینس نہیں مل رہی۔ ایک چھوٹا سا ٹیسٹ بھی کروانا ہے۔ 7400 کا خرچ ہے مگر چلو جہاں اللہ نے آج تک ہاتھ نہیں پھیلانے دیا اس کا بھی کوئی وسیلہ بنا ہی دے گا"۔
آپ سچ پوچھیں تو ان بزرگوں کو دیکھ کر میرے جیسے سیانے کا دل بھی پسیج گیا۔ میں چونکہ سفروں میں رہتا ہوں لہذا بہت سے ڈراموں سے بھی واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ ایسے ایسے نوسرباز ہیں اس ملک میں اور ان کے ایسے ایسے واردات کے طریقے ہیں کہ اچھا بھلا سمجھدار انسان بھی لٹ جاتا ہے۔ میرے جیسوں کو جن کو ملک کے طول و عرض میں سفر کے دوران ایسے نوسربازوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے وہ ذرا متجسس بھی رہتے ہیں اور ہوشیار بھی۔ مجھے بس یہ سوچ آئی کہ یہ اچانک ملے، بخاری بھی نکل آئے اور پھر بڑے مہذب طریقے سے اپنی بات بھی کہہ دی اور بات میں خرچہ بھی بتا دیا۔ کیوں؟
ان بزرگوں کی مدد کرنے سے قبل بس یونہی برائے دلی تسلی یا یوں کہہ لیں کہ اک بار چھان پھٹک کرنے کو میں نے کہا "چچا جی وہ اپنا کمانڈو کا کارڈ تو دکھائیں جو آپ پہلے دکھا رہے تھے"۔ یہ سنتے ہی وہ ایکدم بولے "کیوں بیٹا؟ خیریت ہے ناں؟"۔ میں نے گاڑی چلاتے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا "جی چچا بس دیکھنا ہے مجھے، آپ دکھا دیں"۔ انہوں نے پلٹ کر جواب دیا "بیٹا وہ دیکھ کر کیا کرو گے۔ مولا سلامت رکھے آپ کو، بس مجھے راوی ٹول پلازے پر ہی اتار دیں"۔
میں نے پھر کہا "چچا آپ وہ کارڈ دکھائیں بس، مجھے دیکھنا ہے آرمی کمانڈو کا کارڈ کیسا ہوتا ہے۔ آخر آپ کو دکھانے میں کیا ہے؟ پہلے بھی آپ خود دکھا رہے تھے"۔ یہ سن کر انہوں نے ڈھیلا ڈھیلا سا بٹوہ نکالا اور کارڈ نکالنے لگے۔ پھر تھمانے سے پہلے بولے "بیٹا غلط نہ سمجھنا اس پر نام درست نہیں لکھا ہوا۔ وہ اصل میں ہوا یہ کہ آفس کلرک کی غلطی سے نام کسی اور کا لکھ دیا"۔۔ وہ پتا نہیں کیا کیا بولنے لگے جس کی کوئی منطق نہیں بنتی تھی۔
کارڈ میں نے دیکھا۔ اس پر لکھا ہوا تھا "اجمل گوندل ولد صمد حسین گوندل"۔ ایڈریس تھا "یو سی 155، سیٹلائٹ ٹاون، تحصیل و ضلع سرگودھا"۔ کارڈ کی پرنٹنگ انتہائی ناقص قسم کی تھی جو کہ پاک فوج جیسے ادارے کی نہیں ہو سکتی۔ فوج کا مونوگرام ہی دھندلا سا اور Blur چھپا ہوا تھا۔ یہ پہلی نظر میں ہی جعلی کارڈ لگ رہا تھا۔ اصلی تو میں نے بھی دیکھ ہی رکھے ہیں۔
چچا کو بھی سمجھ آ چکی تھی۔ وہ گھبرا رہا تھا۔ کہنے لگا بس مجھے یہی ڈراپ کر دو بیٹا۔ میں نے کہا "چچا ایسے کیسے، آپ کو ٹھکانے پر اتارتا ہوں"۔ راوی ٹول پلازہ سامنے آیا تو میں نے موٹروے پولیس کے قریب بریک لگا دی۔ چچا اب مجھے بازو سے پکڑ کر میری منت ترلے شروع ہوگیا اور خدا کے واسطے دینے لگا کہ موٹروے پولیس کو نہ بلاو۔
اب آگے کا قصہ مزے کا ہے۔ موٹروے پر انسپکٹر موٹروے موجود تھے۔ تین پھول کاندھے پر سجائے وہ آئے۔ انہوں نے جیسے ہی اس چچا کو دیکھا تو اس سے پہلے کہ میں ماجرا سناتا وہ بولے "میں سمجھ گیا ہوں۔ ان کو ہم نے پہلے بھی پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا مگر پولیس انہیں چھوڑ دیتی ہے"۔
صاحبو، آپ سے بھی گزارش ہے کہ دوران سفر کسی پر بنا چھان پھٹک اعتبار نہیں کرنا۔ ایسے ایسے نوسرباز ہیں کہ آپ کو وہ مکمل اپنی باتوں میں الجھانے کے فن میں ماہر ہیں۔ لفٹ دینا آج کے دور میں رسک ہے مگر یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ بالکل نہ دیا کریں۔ مجھے کوئی مجبور نظر آئے تو بٹھا لیتا ہوں کہ خیر ہے۔ زیادہ تر باوردی اہلکاروں کو جو موٹروے انٹرچینج یا رنگ روڈ پر چھٹی کے بعد اپنے گھر جانے کے لیے لفٹ مانگتے ہیں۔ صرف ایک بار ہی مجھے پولیس اہلکار ایسا ملا جس کو لفٹ دینے پر افسوس ہوا اور میں پھر اسے آدھ راستے میں اُتار کر بہانہ بنا کر چل دیا۔ وہ گاڑی کی ہر چیز کو اُنگلی دے کر کھول دیتا اور پوچھنے لگتا کہ کتنے کی ہوگی۔ سن گلاسز، لائٹر، گاڑی کی قیمت اور چھوٹے موٹے گیجٹس۔ کیا کام کرتے ہو۔ کتنی تنخواہ ہوگی۔ کتنا کما لیتے ہو۔ اس نے مجھے زچ کرکے رکھ دیا تھا۔ باقی انسان کو خود بھی ہوشیار رہنا چاہئیے۔

