Nazriyat Yahan Anqa Hain
نظریات یہاں عنقا ہیں

نظریات یہاں عنقا ہیں اور نظریاتی جماعتیں یہاں پنپ نہیں سکیں۔ جو اقتدار میں ہے اس کا سب کچھ چیف ہے۔ جو باہر ہوتا ہے اس کا اینمی نمبر ون چیف ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ چیف ہی مائی لارڈ ہے۔ وہی طاقت کا مرکز اور وہی اقتدار تک پہنچنے کا چور راستہ ہے۔ میں نے دیکھا ہے کیسے تیزی سے ٹیبل ٹرن ہوئے ہیں۔ کیسے ووٹ کو عزت دو اور باجوہ حساب دو اور یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے۔۔ والے اقتدار ملتے ہی جرنیلوں کی زلف کے اسیر ہوئے۔
اور کیسے وہ لوگ مقتدرہ کی نفرت میں اس حد تک چلے گئے کہ وطن ثانوی رہ گیا اور قائد اول ہوگیا۔ وہ لوگ جنہوں نے سارے سول محکموں پر جرنیل بٹھائے، دن رات فوجی دھن بجائی، ایکسٹینشن کے بلز لائے، پیکا ایکٹ ترمیمی بل آئے، جو جو مخالف تھا اسے اینٹی نارکوٹکس اور آئی ایس آئی سے "فکس" کروایا گیا۔ خارجہ و داخلہ پالیسیز سرنڈر کر دیں۔ دن رات باجوہ صاحب کا باجا بجایا۔ پاکستان میں ستر سالوں سے مقتدرہ ہی مائی باپ ہے۔ مگر ایسی اندھیر نگری بھی نہیں تھی جو آکسفورڈ کے پڑھے لکھے نے آ کر مچا دی تھی۔ پہلے والے تو جھکتے تھے مگر یہ تبدیلی کا نعرہ لگا کر آئے اور آ کر اوندھے منہ لیٹ گئے۔
اصول، نظریات، اخلاقیات یہاں نہ قائدین میں ہیں نہ ان کے اندھے فالورز میں ہیں۔ کلٹ فالونگ نے نظام اور سماج کو ادھیڑ رکھا ہے۔ جیسے ہی ٹیبل ٹرن ہوتا ہے ہر کوئی اپنا جرنیل مَل لیتا ہے۔ میں جرنیلوں کی سیاست میں مداخلت، حکومتیں گرانے اور بنانے اور اپنے آئینی کردار سے تجاوز کا سخت ناقد ہوں۔ میرا نظریہ ہے اور اپنے نظرئیے پر کھڑا ہوتا ہوں۔ تحریک انصاف کے مشتعل کارکنان اور ٹرولرز سے بہت کچھ سنا، سہا اور بھگتا ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ ان سے سکور سیٹل کرنے کو میں جرنیلوں کے عشق میں مبتلا ہو جاؤں۔ ہاں کبھی کبھی یوتھ فورس کی بدزبانی سے دلبرداشتہ ہو کر دل چاہتا ہے کہ ان کے ساتھ جو ہو رہا ٹھیک ہو رہا مگر یہ اس پارٹی کے لونڈوں لپاڑوں کا مزاج ہے اور یہ اب بدلنے والا نہیں۔ ان کو بس چلتا کریں اور ان کے حال پر چھوڑ دیں۔
میں تن من دھن سے اس ملک اور اس کی افواج کے ساتھ ہوں۔ جب جنگ مسلط تھی ہر طرح سے اور ہر لمحہ ساتھ دیا اور اگر پھر بھارت نے جارحیت کی تو جواب مل جائے گا۔ افواج اور مقتدرہ میں تمیز کرنا جانتا ہوں۔ انہوں نے حالیہ کشیدگی میں ڈٹ کر مقابلہ کیا ان کو سلام پیش کرتا ہوں۔ ان کی دل سے عزت کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے اپنا کام بہترین انداز سے کیا ہے۔ مگر ایک گزارش ہے وہ جان کی امان طلب کرتے کرنا چاہوں گا۔
فیض حمید دس سالہ منصوبہ بنا کر بیٹھا تھا۔ مرشد کو فیض حمید کا آسرا لے ڈوبا۔ نواز شریف صاحب چودہویں ترمیم میں خود کو امیرالمومنین کہلوانا چاہتے تھے۔ ضیا الحق نے کب جانے کا سوچا تھا؟ مشرف صاحب کیا خوشی خوشی گئے تھے؟ آپ اقتدار میں رہنے کو جو بھی منصوبے بنائیں ایک منصوبہ قدرت بناتی ہے۔ آپ جرنیلوں کو ان کی اچھی کارکردگی پر سراہیں، ایوارڈز دیں، ہر فورم پر تعریف کریں، فیلڈ مارشل سے بھی آگے کا کوئی اعزاز ہو تو ضرور دیں مگر ابو نہ بنائیں۔ اپنی افواج کا ساتھ دیں، دشمن کے خلاف اس کا ہر محاذ پر مقابلہ کریں۔ وہ پاکستان کے لیے ہے۔ بس اپنی سیاست کے لیے ان کا استعمال نہ کریں۔ آپ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر ایسا کچھ نہ کریں جس پر کل آپ انٹرویوز میں یوسف رضا گیلانی صاحب کی مانند کہتے پھریں کہ ہم نے ایکسٹینشن نہیں دی تھی، انہوں نے خود لے لی تھی۔
جب اس وقت چیختا تھا کہ نہ کرو نہ کرو اس وقت تحریک انصاف کا ڈی جے بہت اونچا تھا۔ آج اتحادی جماعتوں کا ڈی جے اونچا ہے۔ ہم تو لکھ ہی سکتے ہیں اور سیدھی بات لکھ کر اٹھائے جانے کا رسک ہی لے سکتے ہیں۔ اس ملک میں کوئی نہیں مانا، کوئی نہیں جانا اور کسی نے اپنے اعمال کی توبہ نہیں کی۔ مجھے میرے خیرخواہ کہتے ہیں نہ لکھا کرو نہ بولا کرو، کیوں اپنے لیے مشکلات چاہتے ہو۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ اندازِ تکلم کو طنزیہ فربیہ یا مزاح کی ڈھال میں رکھوں۔ وہ بھی کبھی کبھی کسی سے برداشت نہیں ہوتا۔
یہاں بات کہنے کی سپیس ختم ہو چکی ہے۔ یہاں اک جانب لکھنے بولنے والے کو clip کرنے کے لیے قوانین کی بہار ہے، دوسری جانب سیاسی مشتعل کارکنان جو ہلہ بولنے کو ہمہ دم تیار ہوتے ہیں اور تیسری جانب وہ عدالتی نظام جو سر لوگوں سے آرڈر لے کر ضمانت پر رہائی دیتا ہے یا نہیں دیتا۔
اور ایک آخری گزارش۔ جب جشن وشن کا سلسلہ ختم ہو جائے تو ذرا بالائی علاقوں میں ڈرون حملوں اور ان میں مرنے والے بچوں کی بھی خبر لے لیں۔ تھوڑا سا خیال ان کا بھی کر لیں جو اس ملک میں باعزت طریقے سے بس دو وقت کی روٹی چاہتے ہیں۔ ہماری انٹیلیجنشیا یعنی دانشور طبقہ جو کسی بھی قوم میں ریڑھ کی ہڈی سا کردار ہوتا ہے اس کی جرنیلی محبتیں دیکھ کر ایک قول یاد آ جاتا ہے۔