Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Mustaq Ahmad Butt

Mustaq Ahmad Butt

مشتاق احمد بٹ

میرے ہمسایہ ہیں۔ ان سے میرے گھر کی دیوار ملتی ہے۔ بٹ صاحب کی عمر لگ بھگ اتنی ہی ہے، جتنی الحاج محمد نور الدین شیخ صاحب کی جن کا گھر میرے گھر سے دو گھر چھوڑ کر آباد ہے، اور جن کا ذکر میں گذشتہ روز لکھ کے کر چکا ہوں۔ بٹ صاحب بڑے بیبے آدمی ہیں۔ بیگم کے ہاتھوں ستائے ہوئے ہیں۔ بٹ چاچی بھی بہت بیبی ہیں۔ کھُلا ڈُلا بول دیتی ہیں۔ یہ جوڑی اپنی مثال آپ ہے۔

اکثر بھری گرمی میں بٹ صاحب بیگم سے جھگڑ کر اپنے گھر کے گیراج میں مستقل دھری چارپائی پر ڈیرہ ڈالے لیٹے رہتے ہیں۔ پیڈسٹل فین چلتا رہتا ہے۔ کہیں آتے جاتے مجھے دیکھ لیں تو گیراج سے ہی آواز دے دیتے ہیں " شاہ جی کتھے چلے او" ان سے بمشکل نظر بچا کر نکلنا بھی ایک ہُنر ہے۔ جو میں نے وقت کے ساتھ سیکھ لیا ہے وگرنہ ان کے ہتھے چڑھ جاؤ تو گھنٹہ پار سمجھو۔

خود تو وہ گیراج میں عاق ہو کر لیٹے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سارا جگ ہی گھر سے عاق شدہ ہے۔ بٹ صاحب کا غصہ اکثر اوقات گلی میں کچرا اٹھانے کو آنے والی ٹاؤن مینجمنٹ پر نکلتا ہے۔ آئے روز صبح نو بجے وہ ان سے اُلجھ رہے ہوتے ہیں۔ ان کے سبب اب تو گلی میں کوئی مانگنے والا بھی نہیں آتا۔ پہلے پہل کوئی نہ کوئی آ جایا کرتا تھا۔ بٹ صاحب بھی آخر کسے سنائیں؟ کوئی تو ہو جس پر وہ اپنا غبار نکال سکیں۔

آج صبح انہوں نے اپنے قصائی کو ماں بہن کی گالیاں نواز کر نکالنا چاہا۔ جب یہ قضیہ رونما ہو رہا تھا، تو میرے بیڈ روم میں بٹ صاحب کی نازیبا گفتگو آ رہی ہے۔ گھبرا کر میں باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ قصائی اور اس کا لڑکا بٹ صاحب کو چھُری دکھا رہے ہیں اور بٹ صاحب ان کو دے دبا کر ماں بہن کی گالیاں نکال رہے ہیں۔ قصابوں کے تیور مجھے اچھے معلوم نہ ہوئے۔

سچ پوچھئیے تو میں ڈر گیا کہ اس کلاس کا کوئی پتہ نہیں چلتا کب کس بات پر ان کی غیرت اُبل پڑے اور یہ کیا کر گذریں۔ اب قصائیوں کی چھُری اور ٹوکے کے آگے کون جاتا۔ میں نے صورتحال دیکھ کر دونوں قصائیوں کو ہولے سے کہا، آپ دونوں ٹھنڈے ہو جائیں اور یہ چھُری ٹوکا نیچے کرو ذرا " ساتھ ہی بٹ صاحب کو کہا " بٹ صاحب جان دیو۔ تُسی اندر جاؤ میں ایناں نوں ویکھ لاں گا۔

یہ کہنا تھا کہ بڑا قصائی جو بہت گرم ہو رہا تھا۔ وہ میری جانب رُخ کر کے ہاتھ میں چھُرا لہراتے بولا " کی ویکھ لیں گا تُوں؟ ہیں؟ سانوں تون پیسے دے دے اسی جائیے۔ ساڈی مزدوری پندرہ ہزار طے ہوئی سی۔ قصہ مختصر، کافی بحث ہوئی۔ معاملہ یہ سامنے آیا کہ بٹ صاحب نے قصائی کو ران کپڑے میں چھپاتے رنگے ہاتھوں پکڑا اور اس بات پر ان کا میٹر گھوم گیا کہ چوری کیوں کر رہے ہیں۔

قصائیوں کا موقف یہ تھا کہ انہوں نے چوری کیوں کرنا تھی۔ ران پر کپڑا ڈالا تھا تاکہ مکھیوں سے نجات مل سکے اور گوشت سوکھے بھی ناں۔ خیر، معاملات طے پا گئے۔ دونوں پارٹیاں نہ صرف ٹھنڈی ہو گئیں بلکہ قصائی پھر کام لگ گئے اور بٹ صاحب نے انہیں شربت بھی پلایا۔ بٹ صاحب بھی کیا کریں۔ جب بٹ چاچی انہیں بولنے کا موقع ہی نہ دیتی ہو تو وہ کہیں تو بولیں گے ناں بلکہ بولیں گے کم پھٹیں گے زیادہ۔

پچھلے سال بھی یوں ہوا کہ قصائیوں نے بکرا گرا کر بٹ صاحب کو کہا کہ تکبیر پڑھ کر چھُری پھیر دیں۔ بٹ صاحب کا مزاج نجانے کس بات پر بگڑا ہوا تھا۔ انہوں نے چھُری بکرے کی گردن پر رکھی اور گھر کے اندروں کی جانب منہ کر کے بولے " میں ای چین پود ہے گا۔ تُسی ٹھیک او میں ہی چین پود آں" اس سے قبل کہ اسی جملے کے زیر اثر چھُری چلا دیتے قصائی بولا " بٹ صاحب تکبیر پڑھنی اے ورنہ حرام ہو جاوے گا۔

بٹ صاحب کو اچانک یاد آیا۔ وہ اٹھے۔ کُلی کی۔ اچھے سے غرارے کئیے اور پھر ذبح کر کے چھُری دھرتے بولے " او تسی دویں سُن لو۔ جے کھال برباد کیتی ناں تے میں تہاڈے کپورے وی وڈ دینے جے۔ آج دوپہر کو گھر کے باہر آئے۔ مجھے آواز دی۔ باہر نکلا تو خوشگوار موڈ میں تھے۔ کلیجی کا سالن میری جانب بڑھاتی بولے " شاہ جی، تیری چاچی نے بوہت سوادی بنائی اے۔

میں سوچیا تہانوں وی سواد ٹرانسفر کراں " میں نے شرارتاً کہا " آخر چاچی سے بھی معاملات طے پا گئے بٹ صاحب" بٹ صاحب نے اسمائل دی اور بولے ہُن توں کی چاہنا ایں کہ عید وی نہ منائیے اسی دویں؟ اللہ ان کو خوش رکھے۔ عیدین پر ان کی چارپائی گیراج سے اُٹھ جاتی ہے اور ایک دن وہ گھر کے اندر ہی گذارتے ہیں۔

Check Also

Mein Aap Ka Fan Hoon

By Rauf Klasra