Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Mangne Ke Nit Naye Tareeqe

Mangne Ke Nit Naye Tareeqe

مانگنے کے نت نئے طریقے

زمانے میں جدت آنے کے ساتھ طریقہ بھکارت بھی جدید شکل اختیار کر رہا ہے۔ وہ زمانے گئے جب کوئی اکیلا یا معہ بال بچوں کے فلیکس یا بورڈ اُٹھائے سڑک پر آ جاتا تھا جس پر دنیا بھر کی مجبوریاں لکھی ہوتیں۔ یا کوئی ایکسرے معہ ادویات کا نسخہ ہاتھوں میں تھامے کھڑا ہوتا۔ یا بسوں میں چڑھ کر ہر سواری کی جھولی میں کارڈ پھینکتا جاتا جو مدینہ پرنٹنگ پریس سے چھپا ہوتا اور اول و آخر درود شریف لکھا ہوتا۔ اُترنے سے قبل وہ تمام مسافروں سے کارڈ معہ پانچ دس روپے جمع کرتا اور اگلے سٹاپ پر نئی بس پر چڑھ جاتا۔ یا کوئی بھنے ہوئے چنوں کا تھال سر پر اٹھائے جا رہا ہے اور اچانک گر پڑتا ہے۔ لوگ جمع ہو کر اس کے بکھرے چنے سمیٹتے اور رحم کھا کر اسے کچھ نہ کچھ تھما دیتے۔ اگلے کسی موڑ یا چوراہے پر چنے والا پھر گر پڑتا۔

پھر بوسیدہ طریقہ کار میں تبدیلی آئی۔ کوئی خوش لباس باریش چچا ہاتھ میں تسبیح تھامے آتا اور کار کا شیشہ کھٹکھٹا کر اپنی بات شروع کر دیتا۔ "حالات ایسے ہو گئے بیٹا۔ رئیٹائر سرکاری ملازم ہوں۔ پینشن سے کہاں گزارا ہوتا ہے۔ چار بچیاں ہیں۔ بوڑھے کو کوئی مزدوری بھی نہیں دیتا۔ "۔ بچوں کے غولوں کے غول سڑکوں، مارکیٹوں اور پرہجوم جگہوں پر ہاتھ میں کاپی پنسل لیے اُترتے اور گاہک ٹو گاہک پنسل دکھا کر بھکارت جمع کرتے۔

پھر کچھ نئے طریقے مارکیٹ میں متعارف ہوئے۔ انٹرنیٹ پر ایک میسج لکھا اور ہزار ہا کو بھیج دیا۔ عاصمہ ایزی لوڈ کلچر تیزی سے پھیلا۔

مقتلِ غم کی رونقیں ختم نہ ہونے پائیں گی

کوئی تو آ ہی جائے گا، روز صدا دیا کرو

دو روز سے مسلسل ایک نیا طریقہ دیکھ رہا ہوں۔ دفتر آتے جاتے میری رہائشی سوسائٹی کے باہر کینال روڈ پر ایک چھتری لگائے سر تا پا کالے برقعہ میں ملبوس ایک جواں سالہ خاتون فٹ پاتھ پر بیٹھی ہوتی ہے۔ سامنے ایک لال بالٹی دھری ہے، بالٹی کے اوپر شاپر میں ایک کلو لیموں پڑے ہیں اور چار گلاس بالٹی کے ساتھ زمین پر دھرے ہیں۔ کاروں والے رُک کر اس سے شکنجبین تو نہیں پئیں گے۔ بس اس کو سو پچاس ڈالتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ وہ بھی بھیک سمیٹتی ہے اور پھر اپنی جگہ بیٹھ جاتی ہے۔ شاہکام چوک سے کچھ آگے بڑھیں تو ازمیر ٹاؤن کے باہر کینال روڈ پر ایک بابا جی اپنی تین جوان بیٹیوں کے ساتھ سڑک پر ہاتھ جوڑے کھڑے ملتے ہیں۔ اس فیملی کو بھی آتے جاتے دیکھتا رہا ہوں۔

آس پاس جتنی رہائشی سوسائٹیز ہیں وہاں بستے لوگوں کا ایک مسئلہ ہے یہاں گھر کے کام واسطے آیا یا ہیلپر مشکل سے دستیاب ہے۔ گیٹ کیپر یا چوکیدار ملتا نہیں۔ ہاں آپ کو تندرست بھکاری گام گام پر مل جائیں گے۔ بھکارت ایک نشہ ہے۔ جب آسانی سے دیہاڑی لگ سکتی ہے تو کوئی کیوں محنت مشقت کرے گا۔ آپ ان کرداروں کو ملازمت کی پیشکش کرکے دیکھ لیجئے صاف انکار کر دیں گے اور کھسیانے ہو کر چلنا شروع کر دیں گے۔ پچھلی سات دہائیوں سے جس ملک نے عالمی برادری کے سامنے اپنی قوم ریڑھے پر بٹھا کر ہاتھ میں ایکسرے پکڑے کشکول اُٹھایا ہو وہاں چھوٹے پیشہ ور بھکاریوں کو کیا کہنا۔

آپ کو کوئی شک ہو تو پھر ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، یورپی یونین بینک، خلیجی ممالک اور واشنگٹن میں محکمہ خزانہ کے ریکارڈ سے تصدیق کر لیں۔ آپ اگر ان میں سے کسی بھی جگہ میرے ملک کا یا اس ملک کی ہر نکڑ پر نابینا بن کر کھڑا ہونے والے عمران ملنگ، شہباز لپیٹو، نواز بلیڈ، آصف چرخی، مشرف ٹوکا وغیرہ وغیرہ کا نام نہ پائیں تو میں اپنا نام بدلنے اور کشکول پکڑنے کو تیار ہوں۔ لگائیں شرط جتنی مرضی کی۔۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari