Malik Zain Ul Abideen
ملک زین العابدین
گذشتہ روز دوپہر کو ایک کال آئی۔ ایک صاحب نے اپنا نام زین العابدین بتایا اور بولے "مجھے آپ کا کسی سے معلوم ہوا ہے۔ آپ گاڑی بیچ رہے ہیں۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں " میں نے ان کو گھر بلا لیا۔ ایک گھنٹے بعد وہ پن لوکیشن پر پہنچ کر مجھے کال کرنے لگے۔ میں گھر سے باہر نکلا تو گلی میں کھڑے تھے۔ عمر ہو گی لگ بھگ پینتالیس سے پچاس تک۔
شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔ دھوپ کافی تھی۔ میں نے اندر بلا لیا کہ پہلے چائے پانی تو دوں پھر گاڑی پر بھی بات ہو جائے گی۔ اندر داخل ہوتے انہوں نے دروازے کے ساتھ کھڑی گاڑی پر نظر دوڑائی اور بولے " ماشااللہ واوا سوہنی اے" پھر انہوں نے مجھ پر طائرانہ نظر ڈالی اور بولے، کیوں ویچ رے او؟ سب خیریت تے ہے ناں؟ میں نے ان کو یقین دلایا کے سب خیریت ہے۔ آپ اندر آ جائیے۔
اندر تشریف لائے۔ میں نے پوچھا کے ٹھنڈا چلے گا یا چائے کافی؟ زین العابدین صاحب نے لگی لپٹی کہے بنا جواب دیا"پہلاں تے اے سی چلاؤ۔ بہت گرمی اے۔ فیر ٹھنڈا کج وی مل جائے"میں نے اپنے آپ میں ندامت محسوس کی کے مہمان کے آتے اے سی چلا دینا چاہئیے تھا۔ بیگم کو آواز دی کے کچھ ٹھنڈا لاؤ۔ اے سی چلایا۔ گفتگو شروع ہوئی۔
"پہلاں اے دسو تسی کی کردے او؟ تعارف شارف تے کراؤ اپنا۔ ہاہاہاہاہا" صاحب ہنستے بہت تھے۔ بات بات پر۔ اول اول میں سمجھتا رہا کے ہنس مُکھ انسان ہیں شاید میں نے ان کو اپنی جاب کا مختصراً بتا دیا۔ مزید کیا بتاتا جب اگلا آپ کو جانتا ہی نہ ہو تو خود سے اپنے بارے نہیں بتایا جا سکتا۔
واہ واہ شاہ ہو ناں تسی؟
"جی سید ہوں "
میں جناب اعوان ذات، کلر کہار دا ناں سنیا ہونا؟ اودے لاگے ای گراں اے ساڈا۔ میں سادات دا خادم تسی تے مرشد نکل آئے۔ اے تے پیراں دا ویہڑا نکل آیا۔ ہاہاہاہاہاہاہاہا"نوازش اعوان صاحب، لیکن ایسی کوئی بات نہیں پیر ویر میں نہیں، محبت آپ کی میں نے مسکراتے ہوئے رسمی جملے ادا کر دئیے۔ نہ نہ پیر جی۔ سید جو وی ہووے ساڈے لئی پیر اے۔ میری ماں دا حکم اے کے سادات دے برابر وی نئیں بیٹھنا۔ مینوں چنگا نئیں لگ ریا کے میں برابر صوفے تے بیٹھا آں۔
اعوان بھائی شرمندہ نہ کریں۔ ایسی کوئی بات نہیں اسے آپ کی محبت سمجھتا ہوں۔ میں پھر شرمندہ سا ہو کر بولا۔ لو فیر اے تے اپنا ای کار نکل آیا فیر۔ ہاہاہاہاہاہاہاہا"جی، آپ ایزی ہو کر بیٹھیں۔ آپ کا اپنا ہی گھر ہے۔ پیرو، کدی آؤ کلر کہار۔ تساں دی خدمت کرئیے اسی، وہ اپنا بتانے لگے۔ ان کے بقول وہ زمیندار ہیں اور اللہ کا کافی فضل ہے، ڈیرہ داری ہے۔ مقامی سیاست میں بھی خاندان ہے، وغیرہ وغیرہ اور میں ہوں ہاں کر کے سنتا رہا۔
بیگم ملک شیک کا جگ بنا لائی۔ اعوان بھائی کو میں نے پہلا گلاس بھر کر دیا۔ باقی جگ وہ بلا تکلف خود ہی ختم کر گئے۔ ساتھ ساتھ اپنے قصے سناتے رہے۔ جن کے مطابق وہ بہت اثر و رسوخ والے ہیں اور سیاستدانوں سے لے کر ججوں تک ان کے اپنے خاندان کے لوگ ہیں۔ پھر بولےپیرو۔ تسی ملک شیک نہیں پیتا، نہیں۔ مجھے شوگر ہے۔ میں ویسے بھی نہیں پیتا۔
اوئے ہوئے۔ اے کی کہہ دتا۔ تہانوں شوگر اے؟ پیرو نسخہ نوٹ کرو۔ شوگر واسطے بہترین نسخہ۔ نوٹ کرو تسی، جی جی سن رہا ہوں۔ نہ نہ تسی بھُل جانا اے۔ ڈائرئ منگاؤ، اینوں لکھ لو، منگاؤ کاغذ پنسل کوئی میں مجبور ہو کر اٹھا۔ کمرے سے ڈائری پن لایا، چار کلو سفید جو، کالے جو نئیں چٹے جو، ایک کلو کالے چنے۔ ایک کلو باجرہ، ایناں دا آٹا بنوانا اے، آٹا بنوا کے دودھ وچ گوندھنا اے۔ بس ایدی روٹی کھانی اے سالن نال، گندم نئیں کھانی پیرو"
اچھا، میں نے سچ میں لکھ لیا اور کیا کرتا وہ باتوں کی نوک پر لکھوا رہے تھے۔ جب لکھ چکا تو ڈائری بند کرتے بولا، اب گاڑی دیکھ لیں آپ ٹیسٹ ڈرائیو کر لیں۔ جو آپ تسلی کرنا چاہیں کر لیں، کر لاں گے پیرو، کر لاں گے تسلی۔ کی گل کوئی کالی اے تہانوں؟ گڈی تہاڈی تسلی اے ناں، جی میری تو تسلی ہے۔ آپ اپنی کریں، کر لینے آں۔ کر لینے آں۔ پہلاں چاء دا کپ تے ہو جاوے۔
اصل وچ سفر بوہت کیتا میں سویر دا نکلیا سی لہور کم سی ایک۔ او بھگتایا تے فیر سوچیا گڈی ویخ لاں۔ ان کی یہ بات سن کر مجھے احساس ہوا کے یہ بھوکے ہوں گے۔ سفر میں رہے میں نے بیگم کو آواز دی۔ وہ آئی تو کہا کہےکھانا لگاؤ۔ وہ اپنے کام لگ گئی اعوان بھائی اس دوران اپنے قصے بڑھاتے رہے۔ میں اب پکنے لگا تھا، ایک تو وہ بات بات پر ہنستے تھے۔
اور دوسرا مجھے لگنے لگا تھا کہ ایسا باتونی شخص اب رشتے داری نکال کر گاڑی کی قیمت پر نجانے کیسی کیسی اور کتنی دیر بحث کرے گا۔ آخر اس کے پیروں کا گھر جو ہوا۔ صاحبو، کھانا بھی لگ گیا کھانا کھایا بھی گیا، اعوان بھائی اپنی دھن میں مست بجے جا رہے تھے۔ ان قصوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ نہ میں ان سیاسی کہانیوں کے کسی کردار سے واقف تھا۔ جب کھانا بھی کھا چکے اور باتوں کی فصل بھی کافی کٹ چکی۔
تو میں نے پھر کہا، آپ گاڑی تو دیکھ لیں۔ اسے چلا کر چیک کر لیں، قیمت پر میں کمپرومائز نہیں کر سکتا البتہ۔ اگر پسند آتی ہے تو بتائیے اور نہیں آتی تو کوئی مسئلہ نہیں جہاں تسلی ہو وہاں سے لیجئیے۔ دراصل اب مجھے مہمان سے الجھن ہو رہی تھی اور اس کی وجہ ان کی مسلسل بے تکی باتیں اور نان اسٹاپ قہقہے تھے۔ گڈی ویکھ لئی اے، تسی گڈی دی فکر چھڈ دیو، او سمجھو ڈن اے، پیرو تسی کہہ دتا تے بس لے لئی۔ ہاہاہاہاہاہاہا"
"بھائی پھر بھی ایسے کیسے آپ لے لیں گے، اسے اندر باہر سے دیکھ تو لیں۔ اب مجھے تشویش ہونے لگی کے یہ کیسا انسان ہے۔ جو اتنی مہنگی گاڑی بنا دیکھے ڈن ڈن کر رہا ہے۔ مجھے یہ سمجھ آنے لگی کے بھیا یہ کوئی ٹائم پاس انسان ٹکر گیا ہے اور اس نے بس وقت ضائع کرنا ہے، آہو، گڈی ویکھ لئی اے، تسی کتھے جانا اے اگر کوئی نقص ہویا وی تے تہاڈے کار دا راہ مینوں پتہ اے، کاہدی ٹینشن تہانوں؟ ہاہاہاہا"
اعوان صاحب، گاڑی چیک کر لیں یا کسی مکینک کو دکھا لیں۔ بیچنے کے بعد تو میں گاڑی کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کے تسلی کر کے خریدیں جو بھی خریدیں، میں نے اب سیدھا جواب دے دیا۔ میں فل پک چکا تھا۔ چلو، جیویں تسی کہندے او پیرو۔ چاء تے منگواو۔ دو گھٹ لا کے فیر گڈی ویکھ لینے آں"
یہ سن کر مجھے زندگی میں پہلی بار گھر آئے مہمان پر کچیچی چڑھنے لگی۔ پھر خیال آیا کے چلو جو بھی ہے۔ جیسا بھی ہے مہمان ہے۔ میں نے پھر آواز لگائی" بیگم چائے بھیجنا"صاحبو قصہ مختصر، چائے بھی ہو گئی۔ تھری کورس میل مکمل ہو چکا تو میں اٹھا۔ چلیں آئیں۔ گاڑی دیکھیں، آلا۔ چلو فیر"۔ وہ بلآخر اٹھے۔
دروازے کے باہر گاڑی کھڑی تھی۔ انہوں نے پھر اس کھڑی گاڑی کا ایک چکر لگایا۔ انگلی لگا کر پینٹ چیک کیا۔ پہلی بار میں نے دیکھا کے کوئی انگلی سے بھی پینٹ چیک کر سکتا ہے۔ میں بت بنا ان کو دیکھتا رہا، پھر انہوں نے گاڑی کا دوسرا چکر کاٹا، جگہ جگہ بس انگلی لگاتے، اندر سے بھی دیکھ لیں آپ پھر چلا کر بھی دیکھ لیں۔ انجن بھی دیکھ لیں۔
چلا لاں گے، پیرو گڈی مینوں پسند اے، ہن تے میں واپس جانا اے میں تے لہور کم بھگتان آیا سی۔ تسی ڈن سمجھو، دو دن تک آنا واپس بیعانہ ایک گھنٹے تک دس لکھ تہانوں ٹرانسفر ہو ریا اپنا بینک اکاؤنٹ ایس ایم ایس کر دیو"میں سمجھ گیا کے یہ کچھ اور معاملہ ہے۔ ایسے کیسے کوئی گاڑی خریدتا ہے۔ سمجھ تو مجھے آ گئی تھی۔ میں نے ان سے ہاتھ ملاتے کہا " ٹھیک ہے، آپ خیر سے جائیں، اور کیا کہتا صاحبو؟ وہ نکل لئے۔
نہ انہوں نے کال یا میسج کر کے مجھ سے پوچھا کے بینک اکاؤنٹ بھیجیں نہ میں نے بھیجا کے مجھے تو سمجھ آ چکی تھی۔ اب اس واقعہ کو اب سولہ گھنٹے بیت چکے ہیں۔ خیر، وہ رخصت ہوئے تو بیگم نے میری کلاس لینے کو کہا، آپ یہ گاڑی بیچ رہے ہیں یا رشتہ کر رہے ہیں؟ لوگ بھی گاڑیاں بیچتے ہیں تو کیا ہر آنے والے کو اندر بٹھا کر ایسے تواضع کرتے ہیں؟ کہتے ہیں میں نے دنیا دیکھی ہے، خاک دیکھی ہے، آپ کو لوگوں کی پہچان ہی نہیں ہو سکی۔
ٹھیک ہے، کوئی ایشو نہیں، انسان اپنی قسمت کا دانہ کھاتا ہے۔ گرمی تھی دھوپ تھی، اب مجھ سے یہ توقع تو نہ رکھو کے کوئی دروازے پر آئے اور اسے وہیں سے فارغ کروا دوں۔ پتا نہیں شاید وہ کتنا مجبور ہو کے اس نے سوچا ہو ایسے ہی اپنا وقتی گذارہ کر لوں۔ میرا دل نہیں مانا ایسے کے کھڑے کھڑے گاڑی دکھا کر بھیج دوں، ایک تو آپ اور آپ کا دل، اس دل کے ہاتھوں ہی آپ خود کو چونا لگواتے آئے ہیں۔
یہ بات تو وہ ٹھیک کہتی ہے کہ دل کے ہاتھوں آج تک چونا تو بہت لگوایا ہے۔ مگر کیا کروں دل تو آخر دل ہے ناں۔ آپ کو سمجھ کیوں نہیں آ رہی تھی وہ باتوں پہ باتیں بنا کر سناتا جا رہا تھا۔ مجھے آواز آ رہی تھی، مجھے تو سمجھ آ گئی تھی کے یہ وہ نہیں جو یہ سنا رہا ہے۔
او بیگم یہ بھی تو ہو سکتا ہے، وہ میرا رویہ دیکھنے آیا ہو بس، یہ بھی ہو سکتا ہے وہ یہ دیکھنا چاہتا ہو کے اگلا بندہ کیسا ہے اور میں نے اسے مایوس کر دیا ہو۔ انسانوں کے بہت روپ ہیں بیگم اور کئی انسان روپ بدل کر پھرتے ہیں۔ شاید کسی مقصد کی خاطر، اب بھول جاؤ اسے، اچھا بندہ ہوا تو اپنے کسی مقصد میں لگا ہو گا بُرا ہوا تو میرا ابھی تک کوئی نقصان تو اس نے نہیں کیا، یہ سن کر وہ چپ ہو گئی۔
بہرحال مجھے ملک زین العابدین اعوان صاحب (اگر نام اصلی بتایا) سے مل کر ایک اور اچھا تجربہ ہوا۔