Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Madam Butt

Madam Butt

میڈم بٹ

میڈم بٹ اندرون لاہور ایک یونین کونسل کی کوآرڈینیٹر ہیں۔ مجھے یونیسیف کی جانب سے پولیو مہم کی ایکٹی ویٹی دیکھنا تھی۔ میڈم بٹ کا پورا نام تو شبنم بٹ ہے، مگر لیڈی ہیلتھ ورکرز ان کو میڈم بٹ ہی بلاتی تھیں۔ ایک اچنبے کی بات یہ تھی کہ میڈم بٹ کو معلوم تھا میں آ رہا ہوں تو میڈم بٹ نے میرے بارے یا تو تازہ تازہ ریسرچ کی تھی یا پھر وہ سچ میں پہلے سے ہی جانتی تھیں۔

ہوا یوں کہ میرے پہنچتے ہی میڈم بٹ چہک کر بولیں" بخاری صاحب میں آپ کی بڑی فین ہوں" میں نے میڈم بٹ کا حجم اور ڈیل ڈول دیکھا تو کہا " جی لگ رہا ہے آپ "بڑی" فین ہیں" اندرون لاہور کی گلیوں میں پھرتے میڈم بٹ مسلسل باتیں کرتی رہیں۔ وہ مسلسل بولنے والی خاتون تھیں۔ عمر ہو گی 35 کے لگ بھگ۔ ادھر ادھر کی باتیں کرتے اچانک بولیں" سر جی مرد بھیڑیے ہوتے ہیں۔

میرا بس چلے تو میں سب کو گولی سے اڑا دوں" میں نے ایکدم رک کر ان کو دیکھا کہ ان کو کیا ہو گیا۔ میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ مانا مرد بھیڑیے ہوتے ہیں، مگر وہ اگلے کا ڈیل ڈول بھی دیکھتے ہیں۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ کہوں یا نہ کہوں میڈم بٹ بولیں" اوہ نہیں نہیں سر آپ تو شکل سے ہی معصوم لگتے ہیں۔ صبح سے دوپہر ہو گئی، آپ نے تو ہوں ہاں کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کی" میں میڈم بٹ کو دیکھ کر مسکرا دیا۔

میڈم بڑی زندہ دل خاتون تھیں۔ سارا دن بچوں اور اندرون لاہور بسنے والوں کے قصے سناتی رہیں۔ میں سن کر ہنس دیتا۔ شام ہونے کو آئی چل چل کر اب تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی۔ میڈم بٹ کچھ لمحوں کو اپنی جاننے والی ایک خاتون سے باتوں میں مصروف ہوئیں تو ایک لیڈی ہیلتھ ورکر نے کہا " سر میڈم بہت اچھی خاتون ہیں، بڑے کھلے دل کی ہیں۔

ہم 22 لڑکیاں ان کے انڈر کام کرتی ہیں اور یہ ہمارا ماؤں جیسا خیال رکھتی ہیں۔ ہم تو غریب لوگ ہیں یہ سب کی تھوڑی تھوڑی مالی مدد بھی اپنی طرف سے کر دیتی ہیں۔ آپ ان کی باتوں کا برا نہ مانیئے گا۔ ان کو طلاق ہوئی تو ان کا شوہر بچے چھین کر لے گیا اور آج تک یہ دوبارہ اپنے بچے نہیں دیکھ سکیں۔ کبھی کبھی پولیو کے قطرے پلاتے یہ بچوں کو دیکھ کر رو بھی پڑتی ہیں۔

یہ سن کر میں نے میڈم بٹ کو دیکھا۔ مجھے اب ان کی شگفتہ مزاجی کی سمجھ آ چکی تھی۔ وہ خاتون سے مل کر واپس آئیں تو پھر جگتیں لگانا اور قصے سنانا شروع ہو گئیں۔ شام 4 بجے پولیو مہم کے دن کا اختتام ہوا تو سب تھک چکے تھے۔ میڈم بٹ نے اعلان کر دیا کہ آج کا کھانا میری طرف سے ہو گا اور آپ تو کھائے بنا نہیں جا سکتے۔ پھر بولیں" مگر کھانا کھانے ریگل چوک جانا پڑے گا۔

وہاں سے سر جی کوئی چکر چھولے ملتے ہیں۔ غضب کے میں نے مسکرا کے کہا کہ بٹوں کی خوش خوراکی پر مجھے اندھا یقین ہے۔ اب چونکہ گاڑی میرے پاس ہی تھی تو مجھے ہی ریگل چوک پہنچانا تھا۔ ٹمپل روڈ پر پہنچے تو انکشاف ہوا کہ ایک چھوٹی سی دکان ہے۔ جس میں چار پانچ افراد سے زیادہ بیٹھ بھی نہیں سکتے۔ میڈم بٹ تو بنچ پر مردوں کی طرح بیٹھیں اور مردوں کی طرح ہی بولیں" بھراوا، 4 پلیٹاں لے آ نال گرم نان لیاویں۔

کھانا کھا کر میں نے بل دے دیا تو میڈم بٹ ناراض ہو گئیں کہ کھانا تو میری جانب سے تھا۔ آخر کار ان سب کو واپس چھوڑا۔ جب میڈم بٹ جانے لگیں تو میں نے کہا " میڈم آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ مرد بھیڑیے ہوتے ہیں، سن کر ہنسیں اور بولیں" لگتا ہے آپ مائنڈ کر گئے ہیں، میرا مطلب آپ تو نہیں تھے۔ میں نے جواب دیا " نہیں میڈم، میں نے ایسا نہیں سوچا ویسے ہی عمومی طور پر آپ کی بات کی تائید کر رہا ہوں۔

بولیں، تے ہور کی۔ میرا وس چلے ساریاں نوں گولی مار دیواں" ساتھ قہقہہ بلند کیا اور چلی گئیں۔ انور مقصود سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ کیا سچ میں اتنے ہی خوش رہتے ہیں۔ جیسی مزاحیہ باتیں اور شاعری کرتے ہیں؟ وہ بولے" تم نے مکئی کا دانہ دیکھا ہے کبھی؟ کب وہ ریت میں جلنے لگتا ہے، تو ہنس پڑتا ہے۔ پاپ کارن بن جاتا ہے۔

Check Also

Kabhi Aise Bhi Jootay Polish Karva Lein

By Rauf Klasra