Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Maan Gayi To Devi, Na Maane To Daain

Maan Gayi To Devi, Na Maane To Daain

مان گئی تو دیوی، نہ مانے تو ڈائن

کچھ باتیں ہیں جو ہوتی رہتی ہیں۔ کچھ خبریں ایسی ہوتی ہیں جو ذہن کے پردے پر ارتعاش پیدا کرکے اگلے لمحے دب جاتی ہیں کیونکہ ایسی خبریں اب سماج کا نیو نارمل ہے۔ کل ایک ایسی ہی خبر ملی۔ کراچی کے ایک فلیٹ میں ماڈل و اداکارہ حمیرا اصغر کی ایک ماہ پرانی لاش عدالتی بیلف نے ریکور کی ہے۔ مالک کو کئی ماہ سے فلیٹ کرایہ نہیں ملا اس نے عدالت سے رجوع کیا۔ عدالتی بیلف نے فلیٹ کا دروازہ توڑا۔ اندر سے ناقابل شناخت حد تک مسخ شدہ ماہ پرانی لاش ملی۔

اداکارہ حمیرا اصغر کے فون ریکارڈ میں موجود نمبروں پر پولیس نے کال کی۔ جب اہلکار نے اس کے بھائی کو کال کی اور بتایا کہ اس کی بہن کی لاش ہے وہ لے جائیں تو دوسری طرف سے جواب آیا کہ آپ اس کےوالد سے بات کریں۔۔ پولیس اہلکار نے والد کو فون کیا۔ باپ نےغصے میں کہا ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔۔ ہم بہت پہلے اس سے تعلق ختم کر چکے اس کی میت کے ساتھ جو کرنا ہے کریں، ہم نہیں لیں گے اور فون بند کر دیا۔ پولیس نے کہا کہ ایک بار کوشش کریں گے ورنہ اداکارہ کو لاوارث قرار دے کر دفنا دیں گے۔

ٹک ٹاکروں کے قتل سے لے کر ان کے جنسی سکینڈلز یا فحش ویڈیوز اور شوبز سے جڑی لڑکیوں کی ناگہانی اموات کی خبریں عام ہو چلی ہیں۔ اکثر کیسز میں یہ بھی دیکھا گیا کہ خاندان ان کو قبول کرنے سے انکاری ہو جاتا ہے۔ والدین یا ورثاء کی ناراضگی مول لے کر یا گھر سے قطع تعلق کرکے شوبز یا ٹک ٹاک کی دنیا میں قدم رکھنے والی لڑکیوں کا انجام اچھا دیکھنے میں نہیں آتا۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟

سوشل میڈیا سے شہرت پانے کی دوڑ میں بہت سے خاندان یا تو معہ فیملی اس کا حصہ بن جاتے ہیں یا پھر نوجوان لڑکے لڑکیاں معاشرتی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس میں کود پڑتے ہیں۔ کاشف ضمیروں، بھولا ریکارڈوں اور ظفر سپاریوں جیسے کرداروں کی کمی نہیں جن کے جعلی لائف سٹائل، ادھار کے شو آف اور کرایے کی گاڑیوں اور گارڈز سے ٹین ایجرز کے اذہان متاثر ہو رہے ہیں۔ وہ جلد از جلد دولت کمانا چاہتے ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ تمام کردار محض ڈھکوسلہ، جعلسازی اور فراڈ کی زندگیاں جی رہے ہیں۔ یہ کردار سر تا پا جعلی ہیں۔

لڑکیوں نے جو کیا سو کیا لیکن مردوں نے اس سوشل میڈیائی دور میں کیا کردار ادا کیا؟ اس سب صورتحال پر طائرانہ نظر ڈالیں تو افسوس کے ساتھ یہ راز بھی آشکار ہوتا ہے کہ ایسے تمام کرداروں پر ہمارا معاشرتی رویہ عورت کے لیے اور ہے مرد کے لیے اور۔

سوشل میڈیا پر ایک کردار ہے بھولا ریکارڈ۔ گجرات کا سنیارا ہے۔ پیسے جمع کرکے دبئی گیا، وہاں روسی لڑکیاں بلائیں اور ساتھ ویڈیوز بناتا رہا۔ وہ ویڈیوز وائرل ہوگئیں۔ کسی نے مشورہ دیا اب اپنا پیج بنا لو جو ہونا تھا ہوگیا۔ کیا ہوا کہ اس کے پیج کے ہفتے میں لاکھ سے زیادہ فالوور ہو گئے اور اس کو مختلف چینلز کی طرف سے ٹی وی پر بلایا جانے لگا۔ اس نے سوچ لیا کہ اب یہی کرنا ہے سو وہ وہی کچھ کرنے لگا رہا۔ فالورز بڑھتے گئے اور اب اسے سوشل میڈیا سٹار کہا جاتا ہے۔

دوسری طرف بھولا سینٹرل پنجاب کا روایتی مرد ہے۔ شادی شدہ ہے، اس کا بیٹا ہوا سوشل میڈیا پر مبارکبادوں کا طوفان آ گیا۔ پھر کچھ پیسے جمع ہوئے اور دوبارہ دبئی گیا۔ وہی روسی لڑکیاں اور پھر وہی کچھ۔ زبان پر ہر دم گالیاں ہوتیں ہیں۔

بھولا کی شہرت کی وجہ عام پاکستانی جوانوں کی خواہشات اور ذہنیت ہے۔ نوجوان اس سے انسپائر ہوتے ہیں۔ سنیار، گجرات کا رہنے والا، دبئی جاتا ہے، لڑکیاں خرید سکتا ہے اور اپلوڈ بھی کر سکتا ہے۔ فحش گوئی بنا کسی ڈر جھجھک کے کرتا ہے شادی شدہ ہے۔ اس مرد کو مکمل آزادی ہے جو مرضی کرے، جس کے ساتھ مرضی کرے اور جہاں مرضی کرے۔ بنیادی اخلاقیات سے عاری اس شخص کو نیشنل چینلز پر مدعو کیا جاتا ہے اور جو اپنے اعمال ویڈیوز کے ذریعہ سرعام لوگوں تک پہنچاتا ہے۔

آج تک مجھے اس کے خلاف نہ کوئی احتجاج نظر آیا نہ طوفان بدتمیزی کہ تم پاکستان یا اسلام کو بدنام کر رہے ہو، نا کوئی اس کو کہتا کہ تم اسلام کے دشمن ہو، نہ خاندان میں کسی کی غیرت جاگ رہی ہے نہ کسی ادارے یا اسلامی گروہ کے جذبات بھڑکے۔۔

قندیل بلوچ اور اس جیسی کئیں لڑکیاں اپنی غربت سے تنگ آ کر سوشل میڈیا پر تمام حد پار کرتے کمانے کو آئیں تھیں جو فحاشی، عزت و غیرت کے نام پر "جہنم واصل" کر دیں گئیں یا یکطرفہ محبت کے نام پر قتل کر دی گئیں۔ لڑکیوں کے ایسے معاملات پر ان کی کردار کشی جائز سمجھی جاتی ہے مگر مردوں کی فحاشی کو "انجوائے" کیا جاتا ہے۔ عورت کے معاملے پر ہمارا سماج ون لائن موٹو پر چلتا ہے"مان گئی تو دیوی، نہ مانے تو ڈائن"۔

یہ ہے سماج جس کی منافقت اور دوہرے رویوں کے آگے گرگٹ بھی شرما جائے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari