London, Main Aur Inam Bhai
لندن، میں اور انعام بھائی

لندن ایسٹ میں انعام بھائی رات گئے مجھے ہوٹل چھوڑ کر گھر چلے گئے۔ پلان کے مطابق صبح آٹھ بجے ناشتے پر انعام بھائی نے مجھے پِک کرنا تھا اور گھر ناشتہ کرنا تھا۔ میں آج صبح آٹھ بجے تیار ہو کر انتظار کرنے لگا۔ نو بج گئے تو رانے کو کال ملائی۔ بولا "او یار بس آدھے گھنٹے میں پہنچ رہا"۔ اور جھٹ پٹے میں فون بند کر گیا۔ میں بیٹھا رہا۔ خیر سے دس بجے تشریف لے آئے۔ میں نے ملتے ہی کہا "ابے پیارے (متبادل لفظ نہیں لکھ رہا)۔ میں شوگر کا مریض ہوں وقت پر ناشتہ اور دوا نہ لوں تو میری وائرنگ ارتھ ہونے لگتی ہے۔ آٹھ بجے سے میں تیار ہو کے بیٹھا ہوا ہوں"۔
پنجابی میں بولے "او یار، بیگم کہہ رہی تھی تم نے بخاری کو گھر لانا ہے، اتنا قریبی دوست ہے، پہلی بار وہ گھر آ رہا، پہلے گھر کو ایکدم صاف کرو۔ وہ بہت صفائی فریک ہے۔ ہمارا رول ہے کہ جس کا دوست یا سہیلی گھر مدعو ہو وہ پہلے گھر کو ایکدم نیٹ کلین کرے گا۔ بس صبح سے صفائیاں کر رہا تھا۔ وہ صفائی کی بابت بہت حساس ہے۔ ویک اینڈز پر ہی کوئی نہ کوئی اس کی سہیلی آتی ہے۔ میرا تو کوئی خاص دوست یہاں نہیں ہے ایسا۔ تم ہی آئے ہو یا ایک آدھ اور دوست ہیں جو کبھی کبھار گھر آ جاتے ہیں۔ اس لیے صفائی کرتے دیر ہوگئی"۔
میں نے سُن کر کہا "اچھا۔ تو جب بھابھی کی سہیلیاں آتیں ہیں تو پھر بھابھی خود سب کرتی ہیں؟"۔ سنجیدہ ہو کر بولا "او نئیں نئیں، میں ہی کر دیتا کہ چلو وہ خوش ہو جائیں گی۔ اس کی سہیلیاں بھی گوری ہیں۔ وہ ذرا میری تعریفیں کر دیتی ہیں۔ اس طرح ان سے بھی اچھے خوشگوار تعلقات بن چکے ہیں۔ وہ بیگم کی کم اور میری زیادہ معترف ہیں"۔
مجھے یہ بات سُن کر ہچکی لگ گئی۔ ہنسی پر قابو پاتے کہا "اچھا اچھا۔ یعنی ویک اینڈ آپ کا گھر میں بہت بزی گزرتا ہے"۔ بولا "ہاں، مشکل سے ہی وقت ملتا ہے۔ لندن کی لائف بہت بزی ہے مہدی"۔
میں نے کہا "یار وہ مظہر ہے ناں برمنگھم میں میرا دوست جس کے ہاں سے تم نے مجھے سکاٹ لینڈ جاتے پِک کیا تھا اس کی بیگم پاکستانی ہے۔ سارا گھر خود مینج کرتیں۔ کھانا بھی بہترین اور شوق سے بناتیں ہیں۔ میری اپنی بیگم بھی گھر خود سنبھالتی ہے تم تو جانتے ہی ہو"۔
رانا ہنوز سنجیدہ تھا۔ مزید سنجیدہ ہو کر بولا "او یار، اپنا ملک تے اپنے لوک اپنے ای ہوندے"۔ پھر اس نے مظہر اور میری بیگم کی امور خانہ داری کی بابت بہت تعریفیں کیں۔ گاہے گاہے کہتا رہا "اپنے ملک تے اپنے کلچر دا کوئی جوڑ نئیں ہے گا مہدی"۔۔
کچھ دیر بعد بات ایک دوسرے موضوع پر چھِڑ گئی۔ کہنے لگا "گورے لوگ انسانیت کی بابت بہت حساس ہوتے ہیں یار۔ وہ کسی انسان کا دُکھ برداشت نہیں کر پاتے۔ دیکھو ناں انسانیت کی فلاح کے لیے کیا کیا کچھ کرتے ہیں۔ میرا انگلینڈ میں رہتے اٹھارہ سالہ تجربہ ہے کہ گورے مردوں سے زیادہ ان کی خواتین زیادہ حساس اور ایکٹو ہوتی ہیں"۔ میں نے وللہ روانی میں اس کی بات کے تسلسل میں کہا "آہو یار، ایناں اگے رو کے گل کرو یا ترلہ منت کر لو تے ویاہ کرن تے وی من جاندیاں نیں"۔
اچانک رانے نے گاڑی سائیڈ پر لگائی۔ میری جانب دیکھ کر بولا "تُوں اینج کر ایتھے ای لتھ جا۔ اے بہت سوہنا پارک اے۔ ایتھوں پبلک ٹرانسپورٹ چلدی رہندی۔ شاوا لندن گھوم پھر۔ موج مار۔ پ چ۔ صبح دا لگیا ہویا توں میری بندوق کرن۔ تینوں کی لگدا مینوں تیری سمجھ نئیں آندی؟"۔
وللہ ان کو یقین دلایا کہ انعام بھائی میں تو آپ کی بات کے تسلسل میں اقرار کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ البتہ وہ بڑبڑاتے رہے اور پھر گاڑی چلاتے بولے "ہُن کار جا کے اپنا منہ نہ کھول لویں۔ میری وی کُج عزت ہے گی کار وچ۔ او رہن دیویں"۔ میں نے وعدہ کیا کہ انعام بھائی فکرمند نہ ہوں۔ میں بس چپ چاپ کمرے کی چھت کا بغور جائزہ لیتا رہوں گا کہ آیا آپ نے پنکھے کے پروں کی صفائی بھی کی ہے یا وہ دھول مٹی سے ہنوز کالے ہیں۔ پھر ان کا ہاسا نکل گیا اور سگریٹ سلگاتے کہنے لگے "کدی کدی میں سوچنا آں ہورے میں کوئی بوہت وڈا گناہ ہی کیتا ہونا جو مینوں یاد نئیں آندا۔ ساری دنیا وچ اکو نیک بندہ (متبادل لفظ نہیں لکھ رہا) ای مینوں ٹکرنا سی"۔
ایک دن اودھے بھائی کو کسی بات پر غصہ آ گیا۔ لیکن دل کے بہت اچھے ہیں۔ گھر لے گئے۔ پہلے رسٹی (پالتو کتا) سے ملوایا۔ پھر بال بچوں سے ملوایا۔ ناشتہ کروایا۔ پھر گپ شپ کرتے رہے۔ پھر بولے کہ مجنوں بھائی اُٹھیں اب لندن گھومنے نکلتے ہیں۔ سو اب اودھے بھائی لندن کی سڑکوں پر گھما رہے۔

