Kuch To Dastaras Mein Rehne Dein
کچھ تو دسترس میں رہنے دیں

ایک عام پاکستانی سارا ماہ دو سو یونٹس گنتا رہتا ہے۔ اس نے کمانا ہے، بال بچوں کا پیٹ پالنا ہے، ان کو اچھی تعلیم دلانے کا خواہشمند ہے تاکہ اس کی اولاد کامیاب ہو کر غریبی سے نکل پائے۔ سارا ماہ اس کا تراہ نکلا رہتا ہے جیسے ہی 201 یونٹ ہوتا ہے بل کی سلیب چھلانگ مار کر کھمبے پر چڑھ جاتی ہے۔
ایک مڈل کلاسیا سات سو یونٹ کی سلیب گنتا رہتا ہے۔ اے سی چلانے کے اوقات کار مقرر رکھتا ہے۔ سارا ماہ وہ اس خیال میں گزار دیتا ہے کہ کسی طرح بجلی کا بل ٹیکس وغیرہ ڈال کر چالیس ہزار سے اوپر نہ جا پائے۔
ایک اپر کلاسیا ان ٹینشنوں سے آزاد ہے۔ اس کا کاروبار یا جاب سیٹل ہے۔ وہ دبا کے اے سی چلا سکتا ہے۔ ماہانہ لاکھ روپیہ بل ادا کر سکتا ہے۔ اس ضمن میں امیر کی بات ہی کیا کرنی۔ یہ ملک ان کے لیے کرہ ارض پر جنت کا ٹکرا ہے۔ پیسہ ہی طاقت ہے۔ پیسہ ہی اختیار پیسہ ہی عزت۔
بجلی کے بلز اور مہنگائی کے حالات پر Pulse کا سروے جاری ہوا ہے۔ تقریباً 72 فیصد افراد اپنے ماہانہ اخراجات پورے نہیں کر پا رہے۔ 39 فیصد افراد دوسروں سے قرض لے کر گزر بسر کر رہے ہیں۔ ورلڈ بینک نے رواں ماہ اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ پاکستان کی کُل آبادی کا چالیس فیصد غربت کی لکیر سے نیچے جا چکا ہے اور گذشتہ دو سالوں میں اس میں ڈیڑھ کروڑ افراد کا اضافہ ہوا ہے۔
آپ جناح ہاؤس کی ایک دیوار کے جلنے کو آج تک رو رہے ہیں۔ یہاں ڈپریشن ہے، جہالت ہے اور بھوک ہے۔ اس بجلی کے بلز پر بلبلاتی عوام سے ڈریں۔ حضرت علی کا ایک قول ہے
"بھرے پیٹ والے کی کمینگی اور بھوکے کے غضب سے ڈرو"۔
کوئی بھی انسان ایک رات میں انارکسٹ یا سماجی بے چینی کا شکار نہیں بنتا۔ پہلے عام آدمی ریاستی اداروں سے اپنی تکالیف کا اظہار چند بنیادی مطالبات کی شکل میں کرتا ہے اور ان میں سے آدھے بھی پورے ہو جائیں تو کئی برس کے لیے مطمئن ہو جاتا ہے۔ اگر نہ پورے ہوں تو پھر وہ توجہ دلانے کے لئے احتجاجی طریقے اختیار کرتا ہے۔ اس سے بھی فیصلہ سازوں کے کان پر جوں نہ رینگے تو پھر وہ اداروں اور شخصیات کی جانب انگلی اٹھانے لگتا ہے۔ تب بھی اس کے حقیقی مسائل کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے تو پھر وہ اداروں اور شخصیات کے نام لے لے کر گالم گلوچ پر اتر آتا ہے۔ یہی فرد کی نفسیات ہے اور افراد کی نفسیات مل کر اجتماعی قومی نفسیات میں ڈھل جاتی ہے۔
اگر تب بھی ریاستی کرتے دھرتوں کا بہرہ و اندھا پن برقرار رہے تو عام آدمی بے ہنگم ہجوم کی شکل اختیار کرکے ریاستی سمبلز کے سامنے تن جاتا ہے اور بے خوف ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ بے خوفی انارکی کا زہر پھیلاتی ہے۔ اس انارکی کو کون سا گروہ یا شخص لیڈ کرے گا یہ بھی کوئی نہیں جانتا۔ کیونکہ اس طرح کی صورتِ حال اپنے لیڈر خود پیدا کرتی ہے۔ اس مرحلے پر نہ کوئی اسپرین کام کرتی ہے اور نہ ہی کیمیو تھراپی، نہ کوئی چالاکی۔
وہ بھائی لوگ جو سولر لگوانے پر زور دے رہے ہوتے ہیں ان کی بات میں وزن ہوتا ہے مگر یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ سولر پر بارہ تیرہ لاکھ لگوانے سے اچھا کہ کچھ اور پیسے ڈال کر ڈنکی پروگرام کر لو۔ مر گئے تو اچھا پہلے کونسا جی رہے ہو اور بچ گئے تو اور بھی اچھا۔ سولر لگوا کے بجلی کے بلوں سے بچ بھی گئے تو پٹرول، مہنگائی اور انارکی سے کیسے بچو گے؟
ہاں ہاں، ہم جنگ جیت گئے۔ عہدے بھی مل گئے۔ سب اچھا جا رہا۔ بلین آف ڈالرز پاکستان پر جلد برسنے والے ہیں۔ روشن مستقبل کے خواب سنہرے ہیں۔ مگر جب تک یہ خواب تعبیر میں نہیں ڈھل جاتے ان سالوں کے دوران کیا کریں؟ یہ خواب میرے واسطے اور میری نسل کے واسطے نئے تھوڑی ہیں۔ میں اپنی ہوش سے دیکھتا سنتا آیا ہوں۔ کرتے دھرتوں سے بس ایک بِنتی ہی رہتی ہے۔ بیشک اس عوام کی چڈی بھی اُتار لو (کپڑے تو اتار ہی چکے) مگر بدلے میں کچھ بنیادی ضروریات بھی دے دیں۔ بجلی، پٹرول اور اشیائے خورد و نوش ان میں سے کوئی ایک تو دسترس میں رہنے دیں۔