Koi Razi Raha Hum Se, Koi Naraz Ho Gaya
کوئی راضی رہا ہم سے، کوئی ناراض ہو گیا

مجھے لوگوں سے بہت پیار اور عزت بھی ملی ہے اور مذہبی و سیاسی جنونی حلقوں سے گالی بھی۔ ہر لکھنے بولنے والے کے ساتھ یہ رویہ رہے گا۔ ہر وہ شخص جو معاشرتی بگاڑ، قدامت پسندی اور مشتعل یا کٹر طبقات کی مذمت میں لکھتا بولتا ہو اسے ان حلقوں یا لوگوں کی جانب سے یہ سب سہنا پڑے گا جو اپنی جماعت، مسلک، برادری سے آگے نہیں سوچ سکتے۔
ان سارے سالوں میں دیکھتا آیا کہ کبھی مجھے ڈاکٹر عبدالسلام کی سائنسی کاوشوں اور سپارکو میں ان کی خدمات کے اعتراف میں لکھنے اور آئے دن اس ملک میں قادیانیوں کی ٹارگٹ کلنگ کی مذمت پر مذہب کے ٹھیکیداروں کی والز پر میرا نام لکھ کر مجھے قادیانی قرار دیا گیا اور نیچے اسی قماش کی فالونگ یہ کہتے پائی گئی کہ اس کا اتا پتہ کسی کو معلوم ہو تو یہاں شئیر کریں۔
کبھی کوئی مجھے لبرل بیغیرت، ملحد یا ایتھسٹ قرار دیتا رہا۔ مذہب دشمن بتاتا رہا اور جب الحاد کے خلاف میری تحاریر وائرل ہوئیں تو ایک طبقہ کہتا رہا آپ نے قلم کا حق ادا کر دیا۔ پھر میں نے ان سے یہ سنا کہ نہیں نہیں یہ ملحد نہیں یہ دراصل بدبو دار شیعہ ہے اور جب میں نے کورونا کے دنوں میں یومِ علی کے جلوس برآمد کرنے پر لکھا کہ ایک سال برداشت کر لیں، جان لیوا وائرس ہے، جہاں حرم پاک اور مسجد نبوی بند ہوگئی وہاں جلوس نکال کر لوگوں کی جانوں سے مت کھیلیں اور پھر سرخ شیعت اور سیاہ شیعت پر لکھا تو شیعہ بھائی مجھے وہابی، سلفی اور مرتد بنا گئے۔ کئی بار کہا، صاف کہا کہ میں نہ سنی نہ شیعہ۔ مجھے صرف مسلمان کہلوانے پر فخر ہے۔ میں خود کو مسلمان کہتا ہوں۔ پھر بھی لوگ ہیں کہ مسلکی برآنڈ سے باہر زندگی بسر کرتے کسی شخص کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
جب ہمارے مشتعل یا کٹر مذہبی حلقوں کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ یہ بندہ آخر کیا ہو سکتا ہے اس کو کونسا لیبل دیں تب وہ ناامید ہو کر کہہ دیتے ہیں یہ دراصل یو این اور امریکا کا ایجنٹ ہے۔ حالانکہ امریکا کی پالیسیز اور عالمی استعمار کے خلاف مسلسل لکھتا آیا۔ مگر کیا کیجئیے مجھے کچھ تو کہنا ہے، کہیں تو فریم کرنا ہے، دلیل کے جواب میں گالی تو آنی ہے سو آ جاتی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ یا ادارہ مجھ سے ناخوش، کچھ "سول کپڑوں" والے وارننگز دے چکے، ایک بار اٹھانے کی کوشش کر چکے جو قسمت کی یاوری بچ گیا اس کا سب کو معلوم ہے۔ یوتھ فورس والے مجھے پٹواری کہتے ہیں اور پٹواری مجھے یوتھیا کہتے ہیں۔ وجہ یہ کہ جب نون لیگ کے بلنڈرز پر لکھیں تو میں یوتھیا، جب مرشد پر بات کریں تو میں پٹواری۔ الخدمت کے ساتھ میرا تعلق صرف و صرف ڈونر کا ہے۔ میں ان سے پانی کے پراجیکٹ انسٹال کرواتا ہوں۔ ان کی سروسز لیتا ہوں کیونکہ وہ یہ کام اچھا، سستا اور بہترین کر رہے ہیں۔ اس کے سوا میرا کوئی تعلق ہی نہیں مگر فلاحی کام کو الخدمت سے کرانے کے سبب مجھے جماعتیا بھی بنا دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی سے میرے نظریات دور تک نہیں ملتے۔ پیپلز پارٹی کا ناقد رہا۔ بلاول کے عالمی یا سفارتی سطح پر دیے گئے پاکستان کے مؤقف پر اس کی جائز تعریف کر دوں تو مجھے جیالے کا لیبل مل جاتا ہے۔
الغرض میں اس غیر انسانی اور ناخواندہ معاشرے میں بہت کچھ دیکھتا رہتا ہوں۔ ان سیاسی مذہبی گروپس کی جانب سے میرا نام اور تصویر لگا کر منظم گالم گلوچانہ مہم بھی چلائی جاتی ہیں۔ یہ مذہبی و سیاسی اشتعال انگیزی تو چھوڑئیے یہاں تو ڈاکٹرز اور وکلاء کی جتھہ بندی یا ان کے اعمال پر لکھ کر دیکھ لیں۔ ڈاکٹری جو مسیحائی کہلاتی ہے اس شعبے میں جو حال ہے کہ معلوم نہیں ہوتا یہ مسیحا ہے یا قصائی ہے۔ میں نے والدین کو ہسپتالوں میں کھویا ہے۔ ڈاکٹرز کو بھگتا ہے۔ وکلاء کا حال کیا لکھنا سب جانتے ہیں۔ جب آپ ان شعبوں کی نان پروفیشنل حرکات پر لکھتے ہیں ڈاکٹر آپ کو ٹیکا لگانے آ جاتے ہیں اور وکیل آپ پر مقدمہ دائر کرنے کی دھمکیوں پر اتر آتے ہیں۔ پھر یہاں جنس کی بنیاد پر گھٹیاپہ پھیلا ہے۔ فیمنسٹس اور اینٹی فیمینسٹس نے اپنے ہتھوڑا گروپس بنا رکھے ہیں۔ آپ مرد و زن میں کسی کے نامناسب فعل کی مذمت کرکے دیکھ لیجئے۔ یا تو عورت کارڈ نکل آئے گا یا عورت کو تمام فساد کی جڑ قرار دینے والے عورت کُش مرد نکل آئیں گے۔ ذات پات کی بنیاد پر "انجمن سادات، ارائیں گروپ، ملک، گجر، چٹھے" وغیرہ الگ بنے ہوئے ہیں جو اپنی برادری کے اس شخص کی ناموس پر بھی پہرہ دیتے ہیں جو نامناسب حرکات سے سماج کو گدلا کر رہا ہوتا ہے۔
دوسری طرف محبت ملی تو وہ بھی بیشمار ملی۔ ملکوں ملکوں گھوما اور پرستار ملتے رہے۔ پاکستان کے اندر بھی لوگ پہچان کر روک لیتے ہیں۔ اس سوشل میڈیا کے طفیل بہت قیمتی انسان بھی ملے ہیں۔ ذاتی طور پر میں پروردگار کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھ پر اپنا فضل رکھا ہے۔ اس کا یہ کرم کیا کم ہے کہ میرے واسطے میری یہودی کولیگ ایلا سینا گاگ اپنے عبادت خانے میں دعا مانگتی ہے اور مجھے عبادت خانے میں حاضری کی تصویر بھیج دیتی ہے۔ میرا ایک روسی دوست آرتھوڈوکس مونیسٹری میں چرچ آف ہولی سپرٹ جب جاتا ہے بی بی مریم کے مجسمے تلے کھڑے ہو کر میرے واسطے بھی خیریت مانگتا ہے۔ نوجوت سنگھ گو کہ مذہب بیزار ہے مگر دو بار وہ گردوارے گیا اور مجھے بتانے لگا "تہاڈے لئے گرو جی توں لمی حیاتی منگی اے"۔
کئی بار مجھے میرے مہربان انباکس بھیجتے ہیں۔ کوئی روضہ نبی کریم ﷺ پر بیٹھا ہے اور دعا کر رہا ہے، کوئی حرم شریف میں حاضری دے رہا ہے اور مجھے بتا رہا ہے کہ آپ کے واسطے بھی دعا مانگی ہے۔ ایک صاحب کربلا سے ویڈیو کال کرکے کہنے لگے "شاہ جی، امام حسین دے روضے تے کھڑا آں، تواڈی یاد آئی اے"۔
وہ دہلی کا اوم جو اپنے ہنی مون پر پرتگال میں اپنی پتنی کے ساتھ ملا تھا اس سے اتنی دوستی ہوئی کہ مندر کی گھنٹیاں بجاتے مجھے یاد کرتا ہے۔ انسان کو اور کیا چاہیئے ہوتا ہے؟ کیتھڈرل و مندر کی گھنٹیوں، معبد کی مقدس ہواوں، مسجد و حرم کی اذانوں میں کوئی آپ کو یاد کرے تو اور کیا چاہیئے ہوتا ہے؟
پھر وہیں، دنیا بھر میں پھیلے پاکستانی جن کی محبتوں کا میں مقروض ہوں۔ اکثر پیغامات ملتے رہتے ہیں۔ کوئی پوچھ رہا ہوتا ہے کہ میں فلاں ملک سے آ رہا ہوں آپ کو کیا چاہیئے؟ یہ سب پروردگار کا کرم ہی تو ہوتا ہے۔ اس نے عزت بخشی ہوتی ہے۔ ماں کے پیٹ سے تو انسان صرف فکر معاش لئے ہی پیدا ہوتا ہے۔
مجھے اکثر تحائف ملتے رہتے ہیں۔ یہ لوگوں کی محبت ہوتی ہے۔ ایک صاحب امریکا سے آئے اور مجھے الیکٹرک سگریٹ بمعہ نکوٹین لیکوئڈز کے پیک دیتے ہوئے بولے "بخاری بھائی! سگریٹ چھوڑ دو۔ وہ اچھا نہیں۔ نکوٹین کی کمی یہ پوری کر دے گا۔ اس کو استعمال کر لیں۔ نقصان دہ تو سگریٹ کا ٹار ہوتا ہے۔ یہ الیکٹرک سگریٹ ٹار سے تو پاک ہے۔ کم سے کم کچھ تو بچت ہوگی صحت کی۔ آپ کیوں جلدی دنیا سے رخصت ہونا چاہتے ہیں؟"
ان کے الیکٹرک سگریٹ پر آ گیا۔ ایک ماہ بعد منہ کا ذائقہ بھی امریکی ہوگیا یعنی بکبکا سا۔ ایک دن دیسی یار نے مالبرو نکالا۔ ابھی کھانا کھا کر ہی بیٹھے تھے۔ میں الیکٹرک سگریٹ کے پف لینے لگا۔ اس نے مالبرو میری جانب بڑھایا۔ "او لعنت پا ایس ممی ڈیڈی ڈیوائس تے۔ اینوں جیب وچ رکھ۔ ایڈا توں برگر کلاس۔ ساڈے نال جدوں بیٹھنا ہووے تے اپنی کلاس گھر چھڈ کے آیا کر۔ وڈا آیا سلیبرٹی۔ پ چ برگرا"۔ بس اس دن پھر سے مملکت خداداد پاکستان کی شہریت واپس لے لی۔
ایک صاحب اسلام آباد میں ملے۔ چائے پی۔ وقت رخصت مجھے انہوں نے ایک گفٹ دیا۔ وہ کوٹ یا شرٹ پر لگانے والا پاکستان کا جھنڈا تھا۔ بیج بہت پیارا تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا تو بولے "بخاری صاحب۔ یہ عام بیج نہیں ہے۔ آپ اس کو غور سے دیکھیں"۔ میں نے بیج کو الٹا سیدھا کرکے بغور دیکھا۔ مجھے عام بیج ہی لگا۔ میں نے حیرت کا اظہار کرتے پوچھا "اس میں کوئی خاص بات ہے تو آپ خود ہی بتا دیں"۔ سن کر مسکرائے "مجھے یہ بتانا نہیں چاہییے کہ ایسا بتاتے انسان کو اچھا نہیں لگتا مگر اس لئے بتانا چاہتا ہوں کہ کہیں آپ اسے غیر ضروری یا عام بیج سمجھتے ہوئے کہیں رکھ کر بھول نہ جائیں۔ یہ گولڈ کا بیج ہے۔ جھنڈے کے اطراف گولڈ ہے اور پن بھی گولڈ کی ہے"۔
پانچ سال ہونے کو آئے۔ وہ بیج میں نے دل سے لگا کر رکھا ہوا ہے۔ کبھی کبھی بیرون ممالک وہی لگا کر پھرتا ہوں۔ جس شاپ پر جاتا ہوں، جن لوگوں سے ملتا ہوں۔ وہ بیج پر نظر پڑتے ہی کہتے ہیں" او۔ فرام پاکستان"۔
کینیڈا سے ایک صاحب جیکٹ لائے۔ وہ منفی 40 ڈگری تک کارآمد ہے۔ ایک تحفہ مجھے گرم پانی کی بوتل کا ملا۔ وہ بوتل پھیل کر 19 لیٹر پانی ذخیرہ کر سکتی ہے اور دھوپ میں رکھ دیں تو آدھ گھنٹے میں پانی نیم گرم کر دیتی ہے۔ اسی طرح کیمپ اور ٹریکنگ سے متعلق تحائف ہیں۔
کیوبا کے سگار، لائٹرز، وغیرہ وغیرہ۔ دوستوں کو معلوم ہے کہ یہ شخص سموکر ہے، ٹریولر ہے، فوٹوگرافر ہے اس لئے اس سے متعلقہ ہی کوئی تحفہ دے دیں۔ ایک انتہائی قیمتی پن بھی ملا۔ میں نے انہیں کہا "اب کون قلم سے لکھتا ہے۔ ٹائپنگ کا زمانہ ہے۔ ان پیج میں پوری کتاب لکھی جاتی ہے"۔ بولے "ہاں، معلوم ہے۔ مگر کوٹ یا شرٹ کی جیب میں قلم اپنا لگا ہونا چاہیئے"۔
اسی طرح مونگ پھلی، ریوڑی، کراچی حلیم، نمکو، پرفیومز، اچار، شہد وغیرہ وغیرہ جیسی سوغاتیں آتی ہیں۔ کتابیں تحفہ آتی ہیں اور ہاں یاد آیا، ایک قدردان نے کیا ہی انوکھا اور قیمتی تحفہ دیا تھا۔
برطانیہ سے تشریف لائے۔ گھر مدعو کیا۔ جاتے جاتے میری جانب ایک پیکٹ سا بڑھاتے ہوئے بولے "شاہ جی! اسکاچ وہسکی 1982"۔ یہ سنتے ہی میں نے مسکراتے ہوئے کہا "میں ایسا شوق نہیں رکھتا سر، مگر شکریہ، یہ 1982 کیا ہے؟"۔ بولے " آپ کا برتھ ائیر 1982 ہے ناں؟ مجھے معلوم تھا۔ یہ وہسکی 1982 میں بنائی گئی۔ پرانی ہے لہذا قیمتی بھی ہے۔ اب آپ شوق نہیں رکھتے تو اس کی بوتل کو ویسے ہی سجا دیجیئے گا کیونکہ خالی بوتل کا ڈیزائن بھی کلاسک ہے"۔
پھر حیران ہوتے بولے "مجھے لگتا تھا کرئیٹیو لوگ ایسا شغف رکھتے ہیں۔ مجھے معلوم ہوتا تو کچھ اور لے آتا۔ اپنے تئیں میں بہترین تحفہ لایا تھا"۔ وہ رخصت ہوئے۔ میں بوتل کو ان پیک کرکے دیکھنے لگا۔ خوبصورت سٹائل کی بوتل تھی۔ اتنے میں بیگم سر پر پہنچی۔
"میں کہتی ہوں اس خباثت کو فوری گھر سے نکالیں۔ میرے گھر میں ایسی کوئی چیز نہیں رہ سکتی۔ ابھی کے ابھی اسے باہر پھینکیں"۔ اس نے جائے نماز سے اٹھ کر حجاب کر رکھا تھا اور جلال اس کے چہرے سے قبلہ رضوی مرحوم کی مانند عیاں تھا۔ وہ ویسی ہی لال سرخ ہوئی جا رہی تھی۔ اس شام وہ ایک جاننے والے کو دے آیا جو مشروب مغرب کا بہت دلدادہ ہے۔
اک ہجوم رکھنے یا بھیڑ پالنے کا میں قائل نہیں۔ نہ اس سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ نہ میرا روزگار سوشل میڈیا سے وابستہ ہے۔ نہ میں نے آن لائن اشیاء کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنا ہوتا ہے۔ الغرض مجھے اس سے غرض ہی نہیں کہ یہاں کون ہیں اور کتنے ہیں۔ ہاں، مجھے اس سے غرض ہے کہ جتنے ایڈ ہیں وہ کیسے ہیں اور ان کا طرز عمل کیسا ہے۔
کوئی رہتا ہے یا جاتا ہے یہ اس کی منشاء ہے۔ کوئی خوش ہے یا کسی سبب ناراض ہے جو اس کا دل چاہے۔ نہ آپ کسی کو خوش رکھ سکتے ہیں نہ کوئی آپ کی اچیومنٹ پر دل سے خوش ہوتا ہے اور ناراضگی کا ذکر ہی کیا۔ یہاں تو قدم قدم پر ناراضگیاں جنم لیتی ہیں اور ان کا سبب بس یہی ہوتا ہے کہ آپ ان کے مطابق نہیں چل رہے یا ان کی سوچ کے مطابق عمل پیرا نہیں۔ میں بات وہی کہوں گا جس کو صدق دل سے ٹھیک سمجھتا ہوں، جو میں نے اپنے ذہن سے خود اخذ کیا ہو۔ کسی کے پولیٹیکل اینڈ ریلیجئیس ایجنڈے کے زیراثر نہیں لکھوں گا۔ قلم کو خدا کی امانت سمجھا ہے۔ قلم کمزور کے حق میں چلے گا طاقتور کے حق میں نہیں چل سکتا۔ میں سو فیصد غلط اور 99.9 فیصد درست بھی ہو سکتا ہوں۔ مگر دل کو یہ اطمینان رہتا ہے اچھا بُرا جو بھی کہا لکھا وہ اپنا ہے۔ کسی کا مسلط شدہ نہیں لکھا، کسی کے رومانس میں مبتلا ہو کر نہیں اور کسی کی فرمائش پر نہیں لکھا۔
کوئی آپ کے تجربات سے سیکھتا ہے تو ویلکم۔ کوئی نہیں سیکھتا تو بھی خوش رہے۔ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہئیے۔ وقت کے ساتھ ہر کوئی اپنے علم و شعور و تجربات کے مطابق سمجھ جاتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ انسان نہ مکمل بُرا ہوتا ہے نہ پرفیکٹ اچھا۔ کوئی بھی کامل نہیں ہے۔ ہر انسان خوبیوں و خامیوں کا مجموعہ ہے۔ اگر کسی کے ہاں وہ بُرا ہے تو بیسیوں کے ہاں وہ اچھا ہے۔ ہر آدمی میں کئیں پہلو پنہاں ہیں۔ بدقسمتی سے انسان دوسرے انسان کے کسی ایک پہلو کو دیکھ کر اس کے بارے فیصلہ صادر کر دیتے ہیں اور اُلجھنا شروع ہو جاتے ہیں اور یہ رویہ ہمارے ہاں ہر طبقے میں بدرجہ اُتم پایا جاتا ہے۔
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
زندگی بڑی مختصر اور قیمتی ہے۔ آپ لمحہ بہ لمحہ مر رہے ہیں۔ خلیہ بہ خلیہ موت اُتر رہی ہے۔ گھڑی کی ہر ٹِک ٹِک آپ کا وقت پورا کرتی جا رہی ہے۔ اپنے حصے کی آکسیجن کھینچتے آپ کے پھیپھڑے ضعف کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ اتنا مغز اور اتنی انرجی نہیں کہ لایعنی تعلقات اور بے مقصد ناراضگیوں کو جھیلا جائے۔ یہ معاشرہ ریورس گئیر میں فُل تھروٹل سے دوڑ رہا ہے۔ یہاں جو وقت سکون سے بیت جائے وہی غنیمت اور جو گھڑیاں اپنوں میں خوشی سے بسر ہو جائیں وہی اثاثہ۔ باقی سب جھنجھٹ، بوجھ اور غیر ضروری ہیں۔ کوئی ناراض ہے تو ناراض رہے خوش ہے تو خوش رہے۔

