Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Ki Hoya Aye?

Ki Hoya Aye?

کی ہویا اے؟

سائفر کیس میں عمران خان کے خلاف اٹھائیس گواہان ہیں جن میں ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور سائفر کے موجد اس وقت کے ہمارے سفیر اسد مجید بھی شامل ہیں۔ اسد مجید نے ہی اس سائفر کو بھیجا تھا۔ علاوہ ازیں فارن آفس تا وزیراعظم سیکرٹریٹ ہر متعلقہ آفیسر بھی گواہان میں شامل ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ صاحب چونکہ کھُلی عدالت کو پسند فرماتے ہیں اس واسطے وہ اگر سائفر کیس بھی پبلک کرنے کو حکم دیں تو اچھا ہوگا ناں۔ ہے ناں۔ یا تو گواہان جھوٹے نکلیں گے یا عمران خان۔ دونوں صورتوں میں عوام الناس کے سامنے صورتحال تو واضح ہوگی اور بلاشبہ یہ انصاف کی جیت ہوگی۔

اس ساری صورتحال پر دو نقطہ نظر ہیں۔

اول یہ کہ امریکا ناخوش تھا اور اسٹیبلشمنٹ نے خان صاحب کو امریکی حکم پر چلتا کیا۔ دوم یہ کہ بطور وزیراعظم سٹیٹ سیکرٹ کو عیاں کرنا حلف کی خلاف ورزی تھی آپ خفیہ کیبل کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے۔ یہ دونوں نقطہ نظر اپنی اپنی جگہ سے درست ہیں۔ عوام کی نظر سے دیکھیں تو پہلا نقطہ نظر درست معلوم ہوتا ہے۔ ریاست کی نظر سے دیکھیں تو دوسرا درست معلوم ہوتا ہے۔

ایسا کیوں ہے؟

یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ عوام اور ریاست (ریاست کا مطلب یہاں ادارے نہیں بلکہ پاکستان پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے اکثریتی شئیر ہولڈرز یا مالکان ہیں) میں بہت بڑی خلیج ہے۔ یعنی ریاست عوام کی ترجمانی نہیں کرتی۔ یا یوں کہہ لیں کہ ریاست الگ ہے عوام الگ ہیں۔ اور یہی اس ملک کا المیہ ہے کہ یہاں ریاست سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی۔

ریاست کی بنیادی تعریف کیا ہے؟

لغات اُٹھا لی جائیں توان میں لفظ ریاست کی مختلف تعریفیں ملتی ہیں مگر ان تعریفوں میں تین عناصر مشترک ہیں۔ پہلا عنصرلوگ یا عوام ہیں یعنی کوئی بھی ریاست لوگوں کے بغیر تشکیل نہیں پا سکتی یعنی اگر کسی جگہ انسان ہی موجود نہیں تو وہاں ریاست کی موجودگی اور عدم موجودگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسرا عنصر یا شرط حکومت یا سسٹم ہے یعنی جو لوگ موجود ہوں ان میں حقوق و فرائض کی ادائیگی کے ایک طریقہ کار پر اتفاق ہو جو تمام ریاستوں میں آئین فراہم کرتا ہے چاہے وہ تحریری ہو یا غیر تحریری۔ جب ہم آئین کے تقدس کی بات کرتے ہیں تو اس کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ اگر آئین سبوتاژ ہوگا تو ریاست اپنا وجود کھو بیٹھے گی۔ تیسرا عنصر علاقہ ہے جسے موجودہ ریاستی نظام میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ ہرریاست کی ایک سرحد ہے اور اس کے بعد ہی دوسری ریاست کا علاقہ شروع ہو سکتا ہے۔

پہلا عنصر عوام ہیں۔ عوام سے مراد لوگوں کا جتھہ یا گروہ یا آبادی نہیں۔ عوام سے مراد ایسا گروہ یا ملت یا افراد جن کا ایک نظریہ پر اتفاق ہو وہ مل کر ریاست تشکیل دیتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں کہوں تو ایک قوم۔ یہاں قوم نامی کوئی شے وجود نہیں رکھتی۔ ہاں، آبادی پچیس کروڑ ہے مگر یہ کروڑ ہا کروڑ افراد لسانی، صوبائی اور مسلکی بنیادوں پر اس قدر تفریق رکھے ہوئے ہیں کہ پاکستان کہیں پیچھے رہ جاتا ہے اور زبان، نسل، مسلک اور علاقہ آگے آ جاتا ہے۔

دوسرا عنصر حکومت یا نظام ہے۔ یہ اپنی اصل میں اس واسطے وجود نہیں رکھتی کہ حکومت چلانے کا طریقہ کار آئین واضح کرتا ہے اور آئین یہاں ثانوی حیثیت میں موجود ہے۔ حکومت اور حکومتی ادارے یرغمال ہو جاتے ہیں۔ طاقت کا اصل مرکز حکومت و مقننہ کی بجائے کہیں اور ہوتا ہے۔ سیاستدان و بابو کریسی نااہل یا کمپرومائزڈ ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں حکومت عوامی ترجمانی کی بجائے چند مخصوص بااثر افسران کی باندی بن کے رہ جاتی ہے۔

تیسرا عنصر زمین کا ٹکرا ہے۔ لگ بھگ آٹھ لاکھ مربع کلومیٹر اس قطعہ اراضی جس پر ہم بستے ہیں اور جسے دنیا پاکستان کے نام سے جانتی ہے اس میں نسبتاً خوشحالی یا آسودگی کی پٹی یا علاقہ یا خطہ لاہور تا اسلام آباد جی ٹی روڈ کی پٹی اور اس کے اطراف بسے شہروں (لاہور، گوجرانولہ، سیالکوٹ، فیصل آباد، جہلم، پنڈی وغیرہ) ہے یا کچھ حصہ اربن سندھ جسے حیدرآباد و کراچی کہا جاتا ہے۔ اس کے سوا اسی فیصد پاکستان (ایکس فاٹا، سندھ، بلوچستان، کے پی، جنوبی پنجاب) گلگت بلتستان و آزاد کشمیر (اگر آپ ان کو بھی پاکستان کہنے پر مُصر ہیں) مفلسی، ناخواندگی اور بیروزگاری کی پورٹریٹس ہیں۔ علاوہ ازیں اس آٹھ لاکھ مربع کلومیٹر قطعہ اراضی کا چالیس فیصد مالکان کے پاس گروی ہے جہاں کے مالکانہ حقوق بھی انہی کے ہیں۔

اب تلک آپ اور کچھ سمجھ پائیں یا نہ سمجھ پائیں۔ سائفر ہو یا نہ ہو۔ عمران خان رہے یا نہ رہے۔ کوئی آئے یا جائے۔ کوئی آنے والا ہو یا نہ آ پائے۔ مگر اتنا تو سمجھ چکے ہوں گے کہ ریاست جسے کہا جاتا ہے وہ اپنے وجود میں نہیں آ پائی۔ اس کی وجوہات بہت سی ہیں اور ہر وجہ ایک مکمل مضمون کی متقاضی ہے مگر لب لباب یہ ہے کہ عالمی نقشے پر ایک پاکستان نامی قطعہ اراضی ہے جس کی معین حدود میں گنجان آباد شہر ہیں، کروڑوں لوگ ہیں، چل سو چل ہے، رونق ہے، شور ہے، میلہ ہے، کسی کا ہاتھ اوپر ہے کسی کا ہاتھ نیچے ہے، کسی کے پاس لاٹھی ہے کسی کے پاس بندوق ہے۔ مائٹ از رائٹ واحد اور رائج قانون ہے۔

کوئی آئے، کوئی جائے، کوئی رہے، کوئی مر جائے، کوئی حکومت بنائے، کوئی حکومت سے نکلے، کوئی انقلابی ہو، کوئی خاکی ہو، کوئی لیفٹسٹ ہو، کوئی رائیٹسٹ ہو، میں ہوں آپ ہوں۔ کی فرق پیندا اے؟ کی ہو جانا اے؟ منو بھائی مرحوم کہہ گئے۔

کی ہویا اے؟

کجھ نئیں ہویا

کی ہووے گا؟

کجھ نئیں ہونا

کی ہوسکدا اے؟

کجھ نہ کجھ ہوندا ای رہندا اے

جو تُوں چاہنا ایں، او نئیں ہونا!

Check Also

Dunya Ke Mukhtalif Mumalik Ki Shahkaar Kahawaten

By Noor Hussain Afzal