Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Khotay De Bache Da Ki Keeta?

Khotay De Bache Da Ki Keeta?

کھوتے دے بچے دا کی کیتا؟

کل شام میں نے ایک الیکٹریشن کو گھر بلایا جو پہلے بھی آتا رہا ہے۔ سیلنگ کی کچھ لائٹس فیوز ہوگئیں تھیں۔ وہ آیا اور میرے ٹیبل پر چڑھ کر اس نے سیلنگ کی لائٹ بدلی۔ اس ٹیبل پر میرا لیپ ٹاپ، کچھ ہارڈ ڈسکس وغیرہ ہوتیں ہیں۔ وہیں میں نے ایک ویڈیو کیمرا sony zv-1f رکھا ہوا تھا۔ یہ ایک لاکھ دس ہزار کا کیمرا ہے۔ اس کا مقصد ویلاگ بنانا ہے اور ابھی تک استعمال بھی نہیں کیا تھا۔ صرف ڈبے سے نکال کر رکھا تھا کہ کچھ دیر میں فری ہو کر اس کی سیٹنگز وغیرہ دیکھوں اور اسے ریڈی کرکے رکھوں۔

یہ چونکہ بہت ہی چھوٹا سا کیمرا ہے جو ہاتھ کی ہتھیلی میں پورا چھپ سکتا ہے۔ الیکٹریشن نے کمال مہارت سے اسے اُٹھا لیا اور قمیض کی جیب میں ڈال کر نکل لیا۔ کچھ دیر بعد میری توجہ ہوئی میں نے کیمرا دیکھنا چاہا تو وہ غائب۔ اِدھر اُدھر دیکھا۔ سارے گھر میں ڈھنڈورا پیٹا۔ بیگم بچے بھی تلاش کرنے لگے۔ سب نے کہا کہ الیکٹریشن لے گیا ہے مگر میں بضد رہا کہ نہیں وہ اعتبار والا بندہ ہے کئی بار آیا ہے وہ اس طرح کا نہیں لگتا۔ شکل و صورت سے بھی شریف معلوم ہوتا ہے۔ دو گھنٹے بعد میں نے اس نقصان پر انا للہ پڑھ لی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ شاید میں کسی اور جگہ رکھ بیٹھا ہوں اور جگہ بھول گیا ہوں شاید کل یا پرسوں کسی دراز یا کسی اور مقام سے نکل آئے۔

میرے ہمسائے میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ بیگم کی پرزور فرمائش پر میں نے ہمسائے سے درخواست کی کہ مجھے کچھ دیر پہلے کی فوٹیج دیکھنا ہے شاید کوئی سراغ مل جائے اور ذہن سے شک دور ہو۔ انہوں نے فوراً اس ٹائم سلاٹ کی فوٹیج نکالی۔ اب سین کچھ یوں ہے کہ الیکٹریشن کی بائیک گھر کے باہر دروازے کے ساتھ کھڑی ہے اور اس کے ہینڈل پر اس کے اوزار وغیرہ کا ایک بیگ لٹکا ہوا ہے۔ الیکٹریشن گھر سے نکلتا ہے۔ بائیک پر بیٹھ کر سٹینڈ اُٹھاتا ہے اور کک مارنے سے قبل اپنی قمیض کی جیب سے کیمرا نکالتا ہے۔ پھر کیمرے کو احتیاط سے اپنے اوزار والے بیگ میں ڈالتا ہے اور چلتا بنتا ہے۔

یہ دیکھ کر میرا میٹر شارٹ ہوگیا۔ اس سے قبل کہ میں اسے چھتر پڑوانے کو بحریہ سیکئورٹی کو یا پولیس کو مطلع کرتا میں نے اسے کال ملا دی۔ اس نے اُٹھائی۔ میں نے کہا " ذرا واپس آنا، وہ جو سیلنگ میں لائٹ بدلی ہے وہ پھر آف ہوگئی ہے۔ اسے چیک کرو کیا مسئلہ ہے"۔ آدھ گھنٹے بعد وہ مطمئن ہو کے واپس آیا۔ میں نے اسے اندر بٹھا لیا۔ اس کے بعد کہا دیکھو کیمرا واپس دے دو۔ فوٹیج میرے پاس ہے۔ تم نے باہر نکل کر وہ اپنے بیگ میں ڈالا تھا۔ چلو شاباش نکالو اسے اور واپس کر دو تاکہ تمہاری خلاصی ہو وگرنہ پھر تمہاری تشریف پر اتنے چھتر پڑواؤں گا کہ سوجھ جائے گی اور سردی کا موسم ہے۔

اس کے چہرے کا ایک رنگ آئے اور جائے۔ پھر کہنے لگا میں کیمرا واپس لا دیتا ہوں وہ دکان پر چھپا کے آیا ہوں مگر میری فیملی ہے بچے ہیں پلیز مجھے معاف کر دیں میں آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔ پہلی بار ایسا کیا۔ مجھے کیمرے کی ضرورت تھی اور پیسے اتنے ہوتے نہیں کہ خرید سکوں۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ پھر رونے لگ گیا۔ اور روتا ہی چلا گیا۔ میں نے اسے اُٹھا کر گاڑی میں بٹھایا۔ اس کی دکان تک پہنچا۔ سارا رستہ وہ روتا ہی رہا اور میں چپ رہا کہ اس کو اپنے کئے پر رونے دو۔

دکان سے کیمرا لیا۔ بائیک چونکہ اس کی میرے گھر کھڑی تھی اس لیے واپس اس کو ساتھ لایا۔ وہ بائیک پر جانے لگا تو میں نے روک لیا " میرے خیال میں تم پیشہ ور چور ہو اوروں کے گھر بھی کچھ ایسا کرتے ہو گے۔ میں پولیس کو بلاتا ہوں ایسے نہیں جانے دے سکتا۔ " اس نے پھر ترلے منت شروع کر دئیے۔ کہنے لگا کہ تین ماہ پہلے ہی جڑواں بچے ہوئے ہیں ان کا دودھ بھی پورا نہیں ہوتا پولیس سے کیسے جان چھڑاؤں گا۔ پھر موبائل نکال کر مجھے یقین دلانے کو اپنے بچوں کی تصویریں دکھانے لگا۔

اب ایسی صورتحال میں انسان کیا کرے۔ اسے جانے دیا۔ پولیس نے بھی اپنا خرچہ پانی نکلوانا تھا اور چھوڑ دینا تھا۔ سامان کی برآمدگی تو ہو چکی تھی۔ بحریہ سیکئورٹی کو اطلاع دیتا تو اس کی دکان بند کروا دیتے۔ دکان بند ہوتی تو وہ روزی روٹی سے جاتا رہتا اور شاید پھر پکا ڈکیت ہی بن جاتا۔ بہرحال، مجھے اس پر ترس آ گیا تو جانے دیا۔ پتہ نہیں ٹھیک کیا یا نہیں مگر اس کی دکان بند کروا کے بھی تو ٹھیک نہ ہوتا۔ کبھی کبھی آپ کو سوچنا پڑ جاتا ہے کہ آپ کے عمل کا اثر کیا ہوگا۔ کیا ایک ہی شخص بھگتے گا یا اس کی پوری فیملی بھگتے گی۔ اگر فیملی بھگتے گی تو ان کا کیا قصور۔ رحمدلی اور انصاف میں انسان الجھ سا جاتا ہے۔ ایسے میں مجرم کو ایک موقع دینے میں کیا حرج ہے۔

کچھ دیر بعد ہمسائے بٹ صاحب آ گئے جنہوں نے فوٹیج دکھائی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی بولے" شاہ پتر کیمرا برآمد ہوگیا کہ نئیں؟"۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہوگیا۔ بولے " تے اس کھوتے دے بچے دا کی کیتا؟"۔ میں نے کہا کہ چھوڑ دیا اور کیا کرتا اس کا۔ سن کر بولے " چنگا، پر اینج دی رحمدلی چنگی نئیں ہوندی۔ پر چلو تیرا کیمرا تے لبھ گیا۔ باقی خیر اے"۔ میں نے بھی ہسنتے ہوئے کہہ دیا کہ بٹ صاحب جے اوس کھوتے دے بچے نے سچ وچ سبق سیکھ لیا اے تے واقعی فیر خیر اے۔۔

Check Also

Pyara Herry

By Saira Kanwal