Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Khana Badosh

Khana Badosh

خانہ بدوش

میں نے کئی شب و روز چناب کے کنارے بسر کیے ہیں۔ کبھی اس دریا نے مجھے اپنی دھنیں سنائی ہیں کبھی میں نے اس کے پانیوں کو اپنی آنکھوں کے پانی ارپن کیے ہیں۔ دریا میں کشتیاں چلتی ہیں۔ سورج ڈھلے ان کشتیوں کو پانی کا سفر کرتے دیکھنا ایک محبوب مشغلہ رہا ہے۔ لوک کتھاؤں والے دریاؤں کو عجب طور سے تقسیم کرتے آئے ہیں۔ چناب عاشقاں، راوی راسقاں اور سندھ صادقاں۔

عاشقوں کے دریا چناب کنارے بسر ہوئے لمحے اکثر یادوں میں گنگنانے لگتے ہیں تو میں پھر سے اس کے کناروں پر جا بیٹھتا ہوں۔ سردیوں کی دھند بھری صبحوں میں جب زمین و آسمان کو کہرے نے ڈھانپ رکھا ہو تو چناب کے پانی بھی بے رنگے لگتے ہیں۔ ان موسموں میں چناب کی روانی میں سکوت آ جاتا ہے۔ ٹھہرا ہوا سا لگتا ہے۔ اس کی سطح پر بہتے جنگلی دریائی پتے ٹھہرے ہوئے نقطے لگتے ہیں جیسے کسی نے پانی پر نشان لگا دیا ہو۔

مرالہ کو جاتے ایک سڑک چناب سے نکلتی نہر کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ نہر کی اس پٹڑی کے اطراف آموں کے درخت ہیں جو اتنے گھنے ہیں کہ ان کا سایہ گرمیوں میں بھی اس راہگزر کو ٹھنڈا رکھتا ہے۔ اطراف میں پیلے، نیلے ارٖغوانی جنگلی پھولوں کی بہتات ہے۔ یہ ایک کچی راہ مجھے گرمیوں میں اپنے طرف کھینچتی ہے۔ اس راہ پر چلتے آموں کے درختوں سے آنے والی کوئل کی کو کو سننا ایک نشہ ہے۔ میں اس نشے کا عادی ہو چکا ہوں۔ اس سے خوبصورت جگہ میرے شہر کے قریب شاید ہی کوئی اور ہو جہاں سکون ٹھہرا ہوا ملتا ہے۔

تتلیوں کے جھنڈ گرمیوں میں جنگلی پھولوں پر منڈلاتے پھرتے ہیں۔ شہر سے باہر نکل کر دیہاتوں کی طرف مرالہ کے مقام پر پھیلا یہ سارا علاقہ خوبصورت ہے۔ اگر موسم ساتھ دے تو دل کرنے لگتا ہے وہیں کھیتوں میں انسان کرسی لگا کر بیٹھ رہے اور کافی پیتا جائے۔ ایک زمانے میں یہیں کہیں جھگیوں والے آباد ہو گئے تھے، جن میں سے ایک جھگی میری توجہ کا مرکز بنی رہی۔ اس میں ایک الگ سی کشش تھی۔ چناب کے کنارے یوں تو کئی جھگیاں آباد ہو گئیں تھیں لیکن وه ایک جھگی سب سے الگ ذرا فاصلے پر سڑک کے ساتھ ایسے بسی تھی جیسے باقی برادری نے اسے علاقہ بدر کر دیا ہو۔

صبح صبح مرالہ کو جاتے میں نے اپنی لال یاماہا روک کر نظر ڈالی۔ یه دھند کے دن تھے۔ 8 بجنے کو آئے تھے لیکن سورج کو دھند نے ڈھانپ رکھا تھا۔ جھگی کا ایک پرده لپیٹ کر اوپر کی طرف تہہ کیا ہوا تھا اور ایک پرده گرا ہوا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی غریب بیوه نے نقاب کیا ہو۔ آدھ کھلے کپڑے کے دروازے سے اندر رکھی دو چارپائیاں بھی آدھی آدھی نظر آ رہی تھیں۔ ایک پانی کا کولر بھی پڑا تھا۔ جھگی کے باہر مٹی کے بنے چولہے کے گرد مرد عورت اور ان کے تین بچے گول دائرے میں بیٹھے تھے۔

عورت ایک چولھے پر روٹی پکاتی اور دوسرے چولہے پر دیگچی میں کچھ ابل رہا تھا۔ غالباً چائے ہو گی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وه نیچے جھک کر چولہے پر پھونک مارتی تو دھواں اور چائے کی بھاپ مکس ہو کر اوپر اٹھتے۔ مرد اور تین بچے ٹوٹے پھوٹے موڑھوں پر بیٹھے تھے۔ بچے چھوٹے تھے اور کانوں والی گرم ٹوپیاں پہنے ہوئے تھے۔ مرد نے گندی سی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ چولہے کے گرد بیٹھا خاندان کبھی آگ سے ہاتھ سینکتا تو کبھی ہاتھ پھر بغلوں میں دبا لیتا۔

شاید ان کی زندگی کا یہ روز کا معمول تھا اس لیے وه اس بات سے بے پرواه تھے کہ سڑک سے گزرتے لوگ انہیں دیکھتے ہوں گے۔ سبھی اپنی حال میں مست تھے۔ مرد تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہنستا تو بچے اور عورت بھی ہنسنے لگتے۔ ان کی آوازیں مجھ تک نہیں آ رہی تھیں۔ شاید یہ ناشتے کی ٹیبل والی گپ شپ تھی جو مٹی کے بنے چولہے کے گرد ہو رہی تھی۔ کچھ دیر میں نے اس خوش باش خاندان کو دیکھا اور پھر بائیک چلا دی۔ جھگی کے اوپر، ارد گرد، آر پار، سڑک پر، آسمان پر، ہر جگہ دھند چھائی تھی۔

بارش تین دن سے موسلادھار برس رہی تھی۔ میں چھٹی کے دن گھر بیٹھے گھبرا رہا تھا تو بارش میں گھومنے بائیک پر نکل پڑا۔ مرالہ کے راستے میں جھگی کے سامنے لال یاماہا رکی۔ جھگی کا پردہ جوں کا توں تھا۔ آدھا کھلا آدھا گرا۔ عورت اور مرد نظر نہیں آ رہے تھے۔ جھگی کی چھت پر نارنجی رنگ کا پلاسٹک پھیلا ہوا تھا، غالباً بارش سے بچاؤ کے لیے۔ جھگی کے آدھ کھلے دروازے پر دو بچے اداس کھڑے تھے۔

جھگی کے باہر بنا مٹی کا چولہا آدھا ٹوٹ چکا تھا۔ اس ڈھے چکے چولہے کی مٹی کھر کھر کر بارش کے پانی کے ساتھ ایک نالی میں بہتی چلی جا رہی تھی۔ یہ عارضی نالی تھی۔ پانی اپنا راسته خود بنا لیتا ہے۔ تین دن سے بارشیں لگیں تھیں۔ چولہا دیکھ کر خیال آیا کہ اس خاندان نے کھانا کیسے پکایا ہو گا؟ پکایا ہو گا بھی یا نہیں۔ جھگی کے اوپر، ارد گرد، آر پار، سڑک پر، آسمان پر ہر جگہ بارش ہی بارش تھی۔

مارچ کی دھوپ کھِلی تھی۔ ہلکی سنہری دھوپ۔ سات بجے صبح مرالہ کو جاتے جاتے لال یاماہا رکی تو دیکھا کہ جھگی کے دونوں پردے گرے ہوئے تھے۔ باہر دو ڈنڈوں کو کھڑا کر کے بیچ میں ایک تار لگا دی گئی تھی جس پر رنگ برنگی کپڑے سوکھنے کے لیے پڑے تھے۔ چولہا نیا بن چکا تھا۔ مٹی کی لپائی بتاتی تھی کہ مرمت ہوئے زیاده عرصہ نہیں گزرا۔ نہ مرد عورت دِکھ رہے تھے نہ بچے۔ مکمل خاموشی تھی۔

شاید آج سب ابھی تک اندر سو رہے تھے۔ جھگی کے اطرف میں بڑے بڑے تنکے کھڑے تھے جن پر سفید روئی جیسے نازک لمبے پھول کی مانند ریشے تھے۔ ان سے گھروں میں صفائی کے کام آنے والی پھول جھاڑو بنتی ہے۔ ان لمبے تنکوں پر چھوٹی چھوٹی چڑیاں بیٹھی تھیں جن کے بوجھ سے تنکے جھکے ہوئے لگتے۔ جب کوئی چڑیا پھڑپھڑاتی تو تنکے جھولنے لگتے۔ جھگی کے اوپر، ارد گرد، آرپار، سڑک پر اور آسمان پر ہر جگہ دھوپ ہی دھوپ تھی۔

اپریل میں پھول کھِلے تو مرالہ کو جاتے دیکھا کہ جگہ خالی پڑی تھی۔ کچھ تنکے ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔ ٹوٹا ہوا مٹی کا چولہا تھا۔ باقی جھگی بستی جو ذرا فاصلے پر آباد تھی وه بھی خالی تھی۔ کوئی بنده بشر نہ دکھتا تھا۔ اردگرد سے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ سرکار نے جھگی والوں سے زمین واگزار کروا لی ہے۔ خانه بدوشوں کو پھر سے ہجرت کرنی پڑی۔ جپسی اپنے مرد اور بچوں سمیت کسی اور جگه چولہا پھونکنے چلی گئی تھی۔ ساری جگہ پر، ارد گرد، سڑک پر، آسمان پر ویرانی ہی ویرانی تھی۔ بائیک چلی تو سوار کا ایک آنسو ہوا کے زور سے پلکوں سے ٹوٹا اور اڑ گیا۔

Check Also

Barkat Kisay Kehte Hain?

By Qamar Naqeeb Khan