Khaabon Ki Aik Aur Dastan
کھابوں کی ایک اور داستان

سیالکوٹ صنعتکاروں کا شہر ہے۔ سرجیکل اور سپورٹس انڈسٹری مشہور ہے۔ سپورٹس انڈسٹری میں ایک بڑا نام سی اے سپورٹس کا ہے جو بین الاقوامی شہرت کی کرکٹ بیٹ بنانے والی فرم ہے۔ سی اے سپورٹس کے مالک صاحب کو شوق چڑھا کہ اپنی رہائشی سوسائٹی بنا لی جائے۔ مالک یہ بھی چاہتے تھے کہ بعدازاں ایک نیوز چینل بھی خریدا جائے اور یوں ترقی کا سفر جاری و ساری رہے۔ سیالکوٹ میں انہوں نے سی اے گولڈ سٹی کے نام سے رہائشی سوسائٹی کا آغاز لیا۔
زمینی معاملات حل کرنے کے واسطے ان صاحب نے بھی وہی راہ اختیار کی جو اس ملک میں سوسائٹی مالکان کرتے ہیں۔ سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر ریوینیو کو "خوش" کرتے رہے اور فائلوں کو پہئیے لگتے رہے۔ ڈی سی ریونیو سیالکوٹ خواجہ آصف کے قریبی سمجھے جاتے ہیں یا یوں کہہ لیجئیے ان کے ساتھ مراسم رکھتے ہیں۔ یہی بابو صاحب 2024 سیالکوٹ الیکشن میں آر او بھی تھے۔ جب سپورٹس انڈسٹری کے مالک نے بہت سرمایہ بہا دیا مگر پھر بھی ڈیمانڈ جاری رہی تو وہ آپ سیٹ ہو گئے۔ آپ سیٹ ہوئے تو انہوں نے چیف صاحب کے قریبی کسی سے رابطہ استوار کیا۔ پھر چیف صاحب تک اپنی بات پہنچائی کہ ہمارے ساتھ یہ معاملات پیش آ رہے ہیں، پیسوں کی ڈیمانڈز پوری کرنے کے باوجود کام رکا ہے اور مزید کی ڈیمانڈ کی جا رہی ہے جو کہ ناقابل برداشت ہے یا بلیک میلنگ ہے اور معاملہ اربوں کا ہے۔
بڑے گھر تک بات پہنچی تو پھر قانون حرکت میں آ گیا۔ ڈی سی ریونیو سیالکوٹ کو سی اے سپورٹس کے مالک کی شکایت پر پرچہ درج کرکے بیدیاں روڈ لاہور کے ایک فارم ہاؤس سے اینٹی کرپشن کی جانب سے گرفتار کر لیا گیا۔ اسے چھڑانا خواجہ آصف صاحب کے بس سے اوپر ہوگیا کیونکہ معاملہ اوپر سے دیکھا جا رہا تھا۔ بڑے گھر سے احکامات ملے تھے۔ زچ ہو کر خواجہ آصف نے بیان داغ دیا کہ بیوروکریٹس تو پرتگال میں جائیداد بنا کر نیشنلٹی کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی جانب کوئی دیکھتا نہیں! اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ڈی سی ریونیو سیالکوٹ کے ساتھ قربت کے سبب ان کا نام بڑے گھر میں لیا جا رہا تھا۔ انہوں نے سوچا کہ اپنا نام صاف کرانے کو بیوروکریسی پر بیان دے دینا چاہئیے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ کل خواجہ آصف صاحب کو نوازشریف صاحب نے طلب کیا اور اس معاملے پر بازپرس کی۔ کل یہ خبر بھی چلتی رہی کہ خواجہ آصف استعفیٰ دے رہے ہیں یا ان سے لیا جا رہا ہے۔ مگر رات کو معاملات طے ہو گئے یا شاید بات صرف ان کی بازپرس تک رکھنا مقصود تھی جو ہو چکی یا ان کے کانوں کی میل صاف کرنا ضروری تھا جو نوازشریف صاحب کے ذریعہ کروا دی گئی۔
خواجہ آصف نے بیوروکریسی کے بارے جھوٹ نہیں کہا ہے۔ کم و بیش پچیس سو بابو ایسے ہیں جن کے متعلق خیال کیا جا رہا ہے وہ پرتگال میں انویسٹر ہیں۔ میری اطلاعات کے مطابق ان سب کی انکوائری رپورٹ بن رہی ہے اور یہ معاملہ بھی بڑے گھر والوں کے احکامات پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی تفصیلات میں ایک شخص علی سہیل ورک کا نام لیا جا رہا ہے جو پرتگال میں پارک ویو کے نام سے سوسائٹی بنا رہے ہیں۔ اسی کے واسطے انویسٹرز کو جمع کیا گیا اور انویسٹر ویزے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کلائنٹس کو نیشنلٹی دلوانے کے پراسس میں ہیں۔
پرتگالی حکومت نے سنہ 2023 تک یہ آفر رکھی ہوئی تھی جو پانچ لاکھ ڈالرز (پندرہ کروڑ پاکستانی روپوں کے مساوی) پرتگال میں کسی بزنس میں انویسٹ کرے گا اسے ویزے کے پانچ سال بعد معہ فیملی نیشنلٹی دے دی جائے گی۔ 2023 میں یہ آفر ختم کر دی گئی۔ یہ کیسز دو سال قبل کے ہیں۔ سہیل ورک کا فرنٹ مین جو پاکستان میں ہے وہ ایک جانے مانے ریسٹورنٹ کا مالک ہے۔ اس مالک نے ہی بیوروکریسی کے اندر یہ آفر پھیلانا شروع کی اور ٹارگٹ بیوروکریسی کو ہی کیا گیا۔ اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ بابو کریسی کے پاس اوپر کا پیسہ بھی ہوتا ہے اور ان کو یورپ کی شہریت لینے کا شوق بھی حد سے زیادہ ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی کہ بیوروکریسی ہی کھیلنے کے لیے "سیف" ہے۔ اگر کچھ معاملات حل کرانے ہوں تو وہ بھی یہی کریں گے اور ان کے ہوتے کوئی کارروائی ہونا بھی ممکن نہیں ہوگا اور کسی کو ویزا کسی سبب نہ بھی مل سکا تو یہ اپنے پیسے ضائع ہونے یا لٹنے کی شکایت بھی نہیں کر سکیں گے۔ ان کے سوا بھی نجی کاروباری حضرات سے پیسہ جمع کیا گیا۔
تو یہ تھی اس ملک میں کھابوں کی ایک اور داستان۔ میں نہیں جانتا کہ بڑے گھر والے بیوروکریسی کو کس حد تک اس معاملے میں pursue کریں گے۔ آخر انہوں نے اپنے معاملات بھی تو بابوکریسی سے ہی چلانے ہوتے ہیں۔ تاحال تو یہی معلوم ہو رہا کہ ٹاپ سے انکوائری کے احکامات دیے جا چکے ہیں۔
باقی بھائیو، آزادی کا مہینہ ہے۔ جشنِ آزادی پر توجہ مرکوز رکھیں۔ یہ تو اس ملک میں چلتا ہی رہتا ہے۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ مجھے اسی ملک میں رہنا ہے اور کوشش ہے کہ بال بچوں میں سلامت رہوں۔
پاکستان زندہ باد

