Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Kaleje Jalte Hain Logon Ke

Kaleje Jalte Hain Logon Ke

کلیجے جلتے ہیں لوگوں کے

ملک ریاض صحافیوں کو پلاٹ دے تو صحافی کرپٹ اور رشوت خور۔ ملک ریاض مرشد کو 458 کنال زمین دے تو وہ تحفہ یا گفٹ۔ انصافیوں سے پوچھیں تو کرپٹ ہوگا تو ملک ریاض ہوگا۔ ہاں ہاں ملک ریاض خدا ترس بندہ ہے نیک کام کے لیے زمینیں بانٹتا ہے۔ صلہ رب سے چاہتا ہے اور سپریم کورٹ جرمانے کی ایڈجسٹمنٹ کابینہ سے اور بس۔ اسی ملک ریاض کے ناقابل ضمانت گرفتاری کے آرڈرز سندھ کی عدالت سے نکلے ہیں اور اس الزام میں نکلے ہیں کہ اس نے سندھ حکومت کے ساتھ مل کر بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمینوں کی ناجائز منتقلی کروائی۔ سندھ حکومت کس کی تھی؟ زرداری صاحب کی۔ لیکن جیالوں سے پوچھیں تو کرپٹ صرف ملک ریاض ہے۔ ہائیڈ پارک پیلس بیچے نواز شریف صاحب کا بیٹا۔ مارکیٹ ویلیو سے زیادہ قیمت پر خریدے ملک ریاض کا بیٹا۔ کیوں؟ نونیوں سے پوچھو تو کرپٹ صرف ملک ریاض ہے۔

کے پی میں گندم سکینڈل، کوہستان پی ڈبلیو ڈی اور سولر سکینڈلز کی صورت اربوں کے کرپشن سکینڈلز سامنے آ رہے مگر مجال ہے گنڈاپور حکومت سے ٹائیگرز سوال بھی پوچھ لیں۔ پنجاب میں بکرمنڈیوں کے فلیکس باپ بیٹی کی تصاویر چھپ رہیں کوئی نونی نہیں بولتا کہ یہ سب کیا ہے، یہیں ذرا Punjab Model Handcart Project کا حال دیکھ لو۔ اس منصوبے میں صرف لاہور کی اندر ایک ہزار ریڑھی بانوں کو ماڈل ریڑھیاں دینا تھیں۔ میونسپل کارپوریشن لاہور کے اندر اس منصوبے کو لے کر خرد برد ہوئی۔ وہ کمپنی (weld engineers) جس نے فی ریڑھی 98000 کا ٹیندر بھرا تھا اس کو کینسل کرکے رحمان اینڈ برادرز کو ایک لاکھ اڑتالیس ہزار فی ریڑھی کی کاسٹ پر ٹینڈر الاٹ کر دیا گیا اور یوں سیدھا سیدھا پچاس ملین کا ڈاکہ سرکاری خزانے پر ڈالا گیا ہے۔

یہ ایک پراجیکٹ کا حال ہے۔ پنجاب میں اس وقت چالیس سے زائد پراجیکٹس اناؤنس کیے گئے ہیں جن میں سترہ اٹھارہ ہی قابل عمل ہیں باقی سب دھکا اور نمبر گیم ہے۔ سندھ میں سب رجسٹرار آفس میں اربوں روپوں مالیت کی 29 پراپرٹیز کے غیر قانونی یا ناجائز انتقال اور فراڈ کا سکینڈل ہے جس پر وزیراعلی سندھ نے انکوائری کمیٹی بنا دی ہے اور کمیٹی ممبران میں لینڈ اور ریوینیو ڈیپارٹمنٹ کے وہ لوگ بٹھا دیے جو خود ملوث یا خود بینیفشری ہیں۔ بلوچستان کے کیا کہنے۔ وہاں تو خزانے پر سالم ڈاکا ہی مارا جاتا ہے پراجیکٹ وراجیکٹ جیسے تردد یا تکلف کی ضرورت نہیں۔

اس ملک میں کوئی مرکزی پارٹی جو حکومتوں کا حصہ رہی یا ہے اور ان کے قائدین کرپشن سے پاک نہیں۔ مسئلہ بس یہ ہے کہ کارکنان اس گدھے کی مانند ہیں جن کی آنکھوں پر کھوپے چڑھا دیے جاتے ہیں اور وہ پارٹی ریڑھے کو کھینچنے کی مشقت میں دن رات لگے رہتے ہیں۔

کرپشن اس ملک میں نظام کا حصہ بنا دی گئی ہے۔ systematic کر دی گئی ہے اور یہ سب اس سسٹم کے بینیفشری، اس سسٹم کے پروردہ اور اس سسٹم کا پرزہ ہیں۔ یہ خود سسٹم ہیں۔ یہ سٹیٹس کو ہیں۔ ملک ڈوبتا گیا اور ان کے نجی کاروبار اور دولت میں برق رفتاری سے اضافہ ہوتا گیا۔ ان سے زیادہ کرپٹ بیوروکریسی ہے۔ بابو کریسی ہی سیاستدانوں، وزیروں مشیروں کو سسٹم کے لوپ ہولز سے آشنا کراتی ہے۔ بیوروکریسی سے زیادہ کرپشن ان کی ہے جو رئیٹارمنٹ پر بھی اربوں کے اثاثے لے جاتے ہیں اور بیرون ممالک میں نوکری بھی تلاش کر لیتے ہیں۔ جو خود کو ہی ریاست ڈکلئیر کر دیتے ہیں۔

جب میں یہ نان سینس سنتا ہوں کہ ہم تو صاف شفاف ہیں ہمارے مخالفین کرپٹ ہیں تو ہنس ہی سکتا ہوں ناں۔ میں یہ مانتا ہوں کہ اس ملک میں کرپشن پر بات کرنا فضول اور یہ بحث ہی بیکار ہے۔ یہاں نیچے سے اوپر تک سب بمطابق اپنے جثے، عہدے اور اختیار کے سسٹمیٹک کرپشن کا حصہ ہیں۔ بیزاری تو مجھے تب ہوتی ہے جب کوئی اس حقیقت کا ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنی سیاسی وابستگی کے سبب خود پر یا جماعت پر تقدیس کی چادر چڑھاتے اسے کلین چِٹ دینے لگتا ہے۔ اسے مقدس ماننے لگتا ہے۔

تو جب تک سب کا اپنا اپنا بابا اور اپنی اپنی حکومت پاک صاف اور کرپٹ صرف Collaborator ملک ریاض ہے پھر اس ملک میں کرپشن کی تعریف کچھ یوں بنتی ہے "میں وی چنگا، میرا پیو وی چنگا، میری ماں وی چنگی۔۔ رشتے دار چین پود"۔

گائیز! ناؤ پلیز لائک، کمنٹ سمتھنگ نائس اینڈ شئیر۔ بقول ضمیر نقوی مرحوم "جب میں یہ سب کہتا ہوں ناں تو کلیجے جلتے ہیں لوگوں کے"۔ لو یو آل

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari