Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Kalam, Awam Aur Nizam

Kalam, Awam Aur Nizam

کلام، عوام اور نظام

ہم لوگ اپنے کارِ بیکار کی دلیل مقدس حوالوں سے ہی ایسی ایسی نکالتے ہیں کہ عام فہم انسان سمجھنے لگتا ہے یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اس سے بڑا دین اسلام پر ظلم کیا ہو گا کہ اس کا لبادہ ہی الٹا اوڑھ لیا جائے اور وہ ان کے ہاتھوں برباد ہونے لگے جو اس کی بقا کے ٹھیکیدار کہلاتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل ایک مذہبی شخصیت کے بیٹے کی شادی میں شرکت کرنا پڑی۔ دعوت دینے والے سکالر تھے اور ماضی میں پی ٹی وی پر اسلامی پروگرامز میں شرکت کیا کرتے تھے۔ ان کا تشخص مذہبی ہے۔ خوش اخلاق و ملنسار انسان ہیں۔ شادی لاہور کے سب سے مہنگے فارم ہاؤس میں تھی۔ شرکاء کی اکثریت بھی مذہبی طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ دو چار سیاستدان بھی شریک تھے، کچھ افسرانِ بالا بھی۔ مجمع زیادہ تو نہیں تھا، لگ بھگ ڈھائی سے تین سو افراد ہوں گے مگر اس شادی کو دیکھ کر میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔

مارکی کی ڈیکوریشن سے لے کر کھانے کی آئیٹمز تک ہر چیز پر اچھا خاصہ خرچ اٹھا ہو گا۔ علاوہ ازیں نعت خوانی و قوالی کی محفل بھی سٹیج پر منعقد کی گئی جس پر شرکاء نے ہزار ہزار کے نوٹ نچھاور کر رکھے تھے۔ یہ شادی کسی لحاظ سے مہا امیر گھرانوں کی شادی سے کم نہ تھی۔ دولت کا بے جا اسراف کونے کونے سے جھلک رہا تھا۔ مجھے چونکہ اس قدر امیرانہ قسم کی شادی کی توقع نہ تھی اس لئے میرے واسطے یہ سب حیران کن ثابت ہوا۔

میں سوچتا رہا کہ یہ وہی ہیں جو ٹی وی پر ریاکاری، شو آف، دولت کے بے جا اسراف سمیت وغیرہ وغیرہ پر درس دیتے رہے؟ ان سے میرا چونکہ محبت و باہمی عزت و احترام کا رشتہ ہے لہٰذا ان کی پر خلوص دعوت پر شرکت کی حامی بھر لی تھی۔ ہوا یوں کہ شادی تو ہو گئی۔ میں بھگتا کر گھر واپس آ گیا۔ چند ہی دنوں بعد ایک شام اُن سے ایک تقریب میں اتفاقی ملاقات ہو گئی۔ ایک ہی میز پر ہم بیٹھ گئے۔

دورانِ گفتگو اپنے برخوردار کی شادی کا ذکر کرتے بولے کہ خدا کا شکر ہے کہ ایک اہم فریضے کو بروقت سر انجام دے چکا۔ ان کا مزاج خوشگوار تھا۔ میں نے ہنستے ہنستے کہا "قبلہ، برخوردار کی شادی پر آپ نے کیا کا چوند جمائی۔ بہت پر تکلف کھانا تھا۔ میں سمجھتا رہا کہ آپ کا تشخص چونکہ مذہبی ہے اس لئے سادہ سی تقریب ہو گی یا رسمِ دنیا کے مطابق ہو گی"۔

انہوں نے میری بات سن کر مجھے سمجھانے کے انداز میں اب کے کیا ہی خوبصورت کبوتر اپنی ٹوپی سے نکالا۔ قرآن کریم کی آیت پڑھی جس کا ترجمہ بھی خود کرتے بولے "خدا کی عطا کردہ نعمتوں کو ظاہر کرو"۔ نجانے کیوں جب بھی کوئی شخص اپنے کار بیکار کی ڈھال مقدس حوالے کو بنانے لگے تو مجھے الجھن ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ میں نے سوچا کہ اب تو ان کا جواب دینا واجب ہو گیا ہے۔ ان کو محسوس کرائے بنا حسبِ معمول ہنستے ہنستے میں نے کہا۔

"قبلہ، قرآن مجید میں خدا نے جن جن نعمتوں کا ذکر کیا ہے ان میں ایک نعمت اولاد ہے۔ اولاد کو اور اس کی خوبیوں خامیوں سمیت ظاہر کرنا چاہیئے، چھپانا نہیں چاہیئے، ان پر پردہ نہیں ڈالنا چاہیئے۔ سورہ الرحمٰن میں جن نعمتوں کا ذکر ہوا ان میں انگور، زیتون، انار، میوے، پھل، وغیرہ وغیرہ ہیں۔ پیغام ربی یہ ہے کہ اگر میں نے تم پر نعمتیں نازل کی ہیں تو جب تمہارے ہاں کوئی مہمان آ جائے، عزیز دوست و رشتہ دار آ جائے تو اسے ظاہر کرو اور اسے شریک طعام کرو۔ کنجوسی نہ دکھانا۔

پھر قرآن نے دولت کو نعمت کہا ہے۔ جیسا کہ وہ کہتا ہے (اے محمد، جب آپ غریب تھے تو کیا ہم نے آپ کو (بیبی خدیجہ کی دولت کے سبب) امیر نہیں بنا دیا؟ دولت نعمت ہے، اس کو ظاہر کرو تا کہ ریاست کو آپ کے کل اثاثوں کا علم ہو اور اس پر ٹیکس (زکوٰۃ و عشر) ادا کرو۔ دولت کو ریاست سے نہ چھپاؤ۔ خدا نے جن جن نعمتوں کا ذکر کیا ہے اس کو دین کی روح کے مطابق ظاہر کرنا ہے۔ اسی خدا نے اسراف، ریاکاری و فضول خرچی سے منع فرماتے ہوئے اسے قابل مواخذہ عمل بھی قرار دیا ہے۔ "

میری بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ مجھے ہاتھ کے اشارے سے روکا۔ شرمندہ سا مسکراتے ہوئے بولے "آپ کی باتیں بجا ہیں، مگر یہ باتیں میرے برخوردار کو بھی سمجھاؤ"۔ کہنا تو میں یہ چاہتا تھا کہ جب آپ کا مذہبی تشخص آپ کی اولاد کو متاثر نہیں کر پایا اور وہ مذہب کی روح کو سمجھنے سے قاصر ہے تو اس میں اولاد کا کیا قصور؟ یہ کام آپ نے کرنا تھا۔ آپ کو خود پر غور کرنا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ مگر ظاہر ہے ایسا جواب دینا مناسب نہ تھا لہٰذا قہقہہ لگا کر بات بدل دی۔

یہ چال، یہی وطیرہ، یہی چلن ہمارے ہاں ہر شخص نے اپنایا ہوا ہے قطع نظر اس کے کہ وہ مذہبی ہے یا عام انسان ہے۔ جہاں اپنا مطلب مذہب سے نکلتا ہو نکال لیتے ہیں اور جہاں رسم و رواج میں مذہب آڑے آنے لگے، مذہب کو خوبصورتی سے لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ دین ہے تو پھر یہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو نہیں۔

ایک اور قرآنی آیت کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ آیت اپنے "دشمنوں " کا منہ چڑانے کو فخر سے لکھی جاتی ہے۔ پتا نہیں کون لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ راہ حق پر ہیں اور ان کی مدد کو خدائی مدد پہنچے گی۔ یہ آیت الیکشنز کے موقع پر تو لگ بھگ ہر شخص اپنے پوسٹر پر لکھ ڈالتا ہے۔ وہ ہے "نصر من اللہ و فتح قریب"۔ ہر روز سننے کو ملتا ہے "آپ نے قرآن سمجھا ہی نہیں۔ نہیں نہیں آپ نے ترجمہ پڑھا ہی نہیں یوں نہیں یوں ہے" وغیرہ وغیرہ۔

ہر کسی کا دعویٰ ہے کہ اس نے پڑھا اور سمجھ لیا۔ معاشرہ منافقت کی سپر لیٹیو ڈگری پر فائض ہے۔ من پسند آیات کا استعمال اپنے کاروبار، اپنے معاملات، اپنے مفاد کی خاطر دھڑلے سے کیا جاتا ہے۔ حتٰی کہ آیت کو کاٹنا بھی پڑے تو کاٹ دی جاتی ہے اور ادھوری آیت چھاپ دی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر مخالف فرقے پر کوئی آفت آن پڑے یا پھر کفار کسی حادثے کا شکار ہو جائیں تو پڑھے لکھے مولوی اکثر کہتے ہوئے پائے جائیں گے کہ۔

"وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا"۔

"اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہو گیا۔ بے شک باطل نابود ہونے والا ہے"۔

یہاں بظاہر تو ہر معاملہ ہر مسئلہ مذہب کی عینک سے دیکھا پرکھا جاتا ہے مگر اتنی ہی حد تک کہ جہاں مذہب اپنے مفاد سے ٹکرا جائے وہاں قرآن لپیٹ دو یا آیت کو تلاشو جو مفاد پر فٹ بیٹھتی ہو۔ ٹیلر میڈ دین نافذ ہے۔

وَتُعِزُّ من تَشَاءُ وَتُذِلُّ من تَشَاءُ۔

قرآن پاک کی اس آیت کو بھی کھلا، بے دریغ اور اپنے حق میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جتنا استحصال مسلمانوں نے اس آیت کا کیا ہے شاید ہی اس کی کوئی اور نظیر ہو۔ اپنے سیاسی لیڈر، اپنے مولانا، اپنی پارٹی، اپنی ٹیم، اپنا نظریہ، اپنا نقطہ نظر، اپنی سوچ، اپنے کردار، اپنے آپ کی فتح پر یہ آیت سرنامہ کلام بنا دی جاتی ہے۔ اور یہ سب مسلمانوں کے بیچ ہی ہوتا ہے۔ دوسرے فریق، دوسری پارٹی، حریف، مقابل کو یہ سنائی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک اور آیت کا استعمال بھی کیا گیا ہے جو ہر ملاوٹ کرنے والے، ذخیرہ اندوز، کم تولنے والے، نا جائز منافع خور کی دکان کے شٹر پر بھی لکھی ہوتی ہے "واللہ خیر الرازقین"۔

ہمارے گھروں، عمارتوں، دکانوں، بازاروں اور چھاؤنیوں میں جا بجا آیات لکھی مل جاتی ہیں۔ مگر آرمی ویلفئیر ٹرسٹ کے ہیڈ کوارٹر راولپنڈی کی عمارت پر جو آیت کریمہ درج ہے اسے دیکھ کر میں سارا دن سوچتا رہا کہ یہ شاید برمحل، برموقع اور برروایت کیا ہی خوبصورت، کامل اور حق بات لکھ دی ہے۔ ایسی آیات کا استعمال دراصل ہمارے مائنڈ سیٹ کی عکاسی ہے۔ بڑے بڑے حروف میں جو آیت درج ہے اس کا ترجمہ ہے۔

"جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ نے تمہارے تابع کر دیا ہے"۔

Check Also

Jimmy Carr

By Mubashir Ali Zaidi