Jamood Kab Toote Ga?
جمود کب ٹوٹے گا؟

سیاسی بیانئیہ جماعتیں بناتیں اور ان کو لوگوں میں راسخ کرتی ہیں۔ اس حد تک راسخ کرتی ہیں کہ سیاسی بیانئیہ حق کے طور پر مان لیا جائے۔ گویا یہ مان لیا جائے کہ وہ حق ہیں اور مخالف باطل ہے۔ سیاسی کارکنان اسی سوچ کے پروردہ ہوتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں ساری پولیٹیکل سائنس اتنی سی ہے کہ میں زید کو مکمل حق سمجھتا ہوں اور بکر کو مکمل باطل۔ اگر آپ بھی زید کو حق نہیں مانتے تو آپ باطل ہیں اور اگر آپ بکر کو باطل نہیں مانتے تو آپ یقیناً باطل ہیں۔
اگر زید کوئی اچھا کام سرانجام دے تو کیا بات ہے، زبردست، بہترین کام، یہ ہوتی ہے اہلیت، ویژن، منصوبہ بندی۔ اگر بکر کوئی یا وہی اچھا کام سرانجام دے تو وہ بیکار ہے، فارغ ہے، نااہل ہے، کرپٹ ہے کیونکہ بات تو پہلے سے طے شدہ ہے کہ بکر باطل ہے۔
اگر زید اقتدار کے حصول کی خاطر چور دروازہ استعمال کرے، عوامی سپورٹ پر انحصار کرنے کی بجائے جرنیل کے کاندھے استعمال کرے، پاور پالیٹیکس کرے، تو یہ حکمتِ عملی ہے، یہ پولیٹیکل موو یا سیاسی ویژن ہے۔ اگر وہی کام بکر کرے تو بکر پٹھو ہے، پالشیا ہے، بوٹ چاٹ ہے، کیونکہ بکر تو باطل ہے۔
اگر آپ زید کی پالیسیوں، بیانات، اقدامات میں سے کسی ایک پر بھی اعتراض کریں یا ناپسند کریں تو یہ گناہ کبیرا ہے، کیونکہ زید تو حق ہے۔ اگر آپ بکر کی ہزار ہا باتوں یا اقدامات میں سے کسی ایک کی تعریف کریں یا اس پر خوشی کا اظہار کریں تو آپ فاسق فاجر منافق ہیں کیونکہ بکر تو پہلے سے تسلیم شدہ باطل ہے۔ اس کو تو مانتے ہی باطل ہیں۔
یہ ہے پولیٹیکل نیرئیٹیو جس سے ہماری اُٹھان ہوتی ہے۔ کارکنان خود کو مکمل حق اور مخالف کو مکمل باطل مان کر چلتے ہیں۔ ان کے دماغوں کو بند کرکے تالا لگا دیا جاتا ہے۔ آنکھوں پر کھوپے چڑھا دیے جاتے ہیں۔ سوچنے، پرکھنے، فکر کرنے کی صلاحیت تب فارمیٹ ہو جاتی ہے جب آپ خود کو حق مان لیتے ہیں۔ مکالمہ کی گنجائش صفر اور ناقد یا مخالف کے نقطہ نظر کو پڑھنے سننے کی برداشت منفی ہو جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں ٹرولنگ، بدتمیزی اور گالم گلوچ کا تڑکا لگ جائے تو ایسا معاشرہ وجود میں آ جاتا ہے جسے ہم پاکستان کہتے ہیں۔
جب دونوں نظریں اپنے گریبان کی بجائے سامنے والے کے گریبان پر ہوں، ہاتھ عقل کو پڑنے کی بجائے دوسرے کی ماں بہن ایک کرنے کو کی بورڈ پر پڑے، خود احتسابی کی بجائے اگلے کا احتساب چاہئیے ہو تب معاشرہ سیاسی جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ اپنی اپنی پوزیشن پر چٹان کی مانند جمے رہنے سے یہ جمود بڑھ کر خلا میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ خلا کو طاقت پُر کر دیتی ہے۔ یہی پاکستان کا المیہ ہے۔
جب تک سیاسی جماعتوں اپنے کارکنان کی ذہن سازی خود کو حق اور مخالف کو باطل منوانے کی نیت سے کرتی رہیں گی یہ جمود طاری رہے گا۔ اس کا نقصان نہ صرف جماعتوں کو ہوتا ہے بلکہ سماج کو ہوتا ہے۔ نازیوں نے پراپیگنڈا کے باوا آدم گوئبلز کے ذریعہ اپنی قوم کو حق اور باقی دنیا کو باطل پڑھایا۔ اس کا خمیازہ بلآخر خود جرمنوں نے بھگتا اور جب ان کو سمجھ آئی تب تک برلن ایسٹ اور ویسٹ میں تقسیم ہو چکا تھا۔ بلآخر عوام نے ہی دیوار برلن گرا دی۔
سیاست میں ابیسولیوٹ کچھ نہیں ہوتا۔ جب ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیں گے کہ ہماری جماعت مکمل حق نہیں اور مخالف مکمل باطل نہیں تب عوامی سطح پر یا کارکنان کی سطح پر جمود ٹوٹنے لگے گا اور پھر لیڈران کرام بھی حق باطل کا منجن چھوڑ کر ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کی روش اختیار کر لیں گے۔ ساؤتھ افریقہ کو بلآخر ٹرتھ اینڈ ری کنسیلیئیشن کمیشن بنانا پڑا۔ سب نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے ساتھ اداروں کے نئے رولز آف گیم کا تعین کیا۔

