Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Iran Mein Jaari Regime Change Operation

Iran Mein Jaari Regime Change Operation

ایران میں جاری رجیم چینج آپریشن

ایران میں رجیم چینج آپریشن کا منصوبہ ہے۔ اس کے کچھ اندرونی محرکات بھی ہیں۔ ایرانی عوام بھی تھک چکی ہے اور نظام میں تبدیلی چاہتی ہے لیکن موساد یا سی آئی اے کی آشیرباد سے نہیں چاہتی۔ یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جو امریکا کے لیے کٹھن ثابت ہوگا۔ اس صورتحال میں رجیم چینج مشکل ہو رہی ہے۔ اس کے لئے اندرونی عوامی سپورٹ چاہئیے ہوتی ہے جو اسرائیلی جارحیت کے بعد ملنا مشکل ہوگئی ہے۔

ایرانیوں کو کوئی بھلے کچھ کہے لیکن وہ امریکا اور اسرائیل سے خالصتاً نفرت کرتے ہیں۔ یہ ان کے ڈی این اے میں شامل ہے اور پھر وہ ماضی میں ڈاکٹر مصدق کا حال دیکھ کر عبرت پکڑ چکے ہیں۔

سی آئی اے نے مصدق کے خلاف جو سازش تیار کی اسے "آپریشن اجیکس" کا نام دیا گیا۔ ڈاکٹر مصدق بھاری اکثریت سے ایران میں کامیاب ہوا۔ ایرانی اس سے محبت کرتے تھے۔ وزیراعظم بن کر اس نے شاہ ایران کے اختیارات محدود کیئے اور شاہ کو رسمی بادشاہ بنا کر رکھ دیا۔ ایران نے مصدق کے روشن پسند خیالات کے ساتھ ترقی کا سفر شروع کیا تو امریکا کو ڈاکٹر اپنے لیئے خطرہ محسوس ہوا۔ ایران میں رضا شاہ پہلوی کو دوبارہ مضبوط کرنے کے لیئے سی آئی اے نے مشن شروع کیا اور ایجنٹ کریمٹ روز ویلٹ نے ایران میں لینڈ کیا، پھر دنیا نے دیکھا کہ وہی مصدق جو ایرانیوں کی آنکھوں کا تارا تھا گلیوں میں ذلیل ہوا۔ مرگ بر مصدق کے نعرے لگے اور چھ ماہ میں اس کا اقتدار انجام کو پہنچا۔ سی آئی اے نے اس مشن پر پانی کی طرح پیسہ بہایا۔

سی آئی اے ایجنٹ روز ویلٹ کریمٹ امریکی صدر آئزن ہاور کو وائٹ ہاوس میں اپنی کامیابی کی داستان سنا رہا تھا تو وہ بولا "ہمارے پاس چاہے کتنے ہی RESOURCES کیوں نہ ہوں، ہم پھر بھی صورتحال کا صرف فائدہ اُٹھا سکتے ہیں مگر صورتحال پیدا نہیں کر سکتے۔ مصدق کو کریمٹ نے نہیں خود ایرانیوں نے مارا۔ خدا کی قسم اگر ایرانی نہ چاہتے تو کریمٹ کامیاب نہ ہو سکتا تھا"۔ کریمٹ کے یہ الفاظ امریکن ڈپلومیسی میں "کریمٹ فارمولا" کے نام سے لکھ دیئے گئے جو اب امریکن ڈپلومیٹس کو پڑھائے جاتے ہیں۔

اس تناظر میں ایرانی عوام صورتحال کو دیکھتے ہیں۔ اس واسطے تبدیلی وہ اندرونی طور پر اپنے زور بازو پر چاہتے ہیں نا کہ امریکی بازو سے۔ آپ رائزنگ کے لیے خفیہ ہاتھ کارگر ہوتا ہے۔ کھلے عام حملہ کرنے کے بعد ایران میں آپ رائزنگ مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوگی۔ اگر پھر بھی طاقتیں بضد ہیں تو ایک ہی صورت باقی بچتی ہے۔ جیسے شام میں کیا، جیسے عراق میں کیا، جیسے لبنان میں کیا۔ یعنی عسکری محاذ پر تباہی بربادی کرنے کے بعد اپنا منتخب شدہ تخت پر بٹھا دے۔ اس عمل کے لیے بھی کافی مشقت کرنا پڑے گی۔ بنیادی وجہ وہی کہ ایرانیوں کو آپ چاہے جو بھی کہیں لیکن امریکا اسرائیل سے نفرت ان کے جنیاتی کوڈ کا حصہ ہے۔ وہ ایسی کسی حکومت، حاکم یا نظام کو قبول نہیں کریں گے جو امریکی تحفہ ہو۔

پاسداران انقلاب اور انقلابی رجیم نے ایرانی عوام کو چھیالیس سالوں سے کچھ نہیں دیا۔ تہران، شیراز اور اصفہان جیسے پانچ ہزار سالہ قدیم فارس تہذیب کے نمائندہ بزرگ اور درویش شہروں میں بستی عوام خوش نہیں ہے۔ قُم یا مشہد کے ریجن میں مذہبی نمائندگان کی زیادہ گرفت ہے سو وہاں بستی عوام کا رجحان اسی رجیم کی جانب ہے۔ بہرحال، ایران میں وہی تبدیلی پائیدار ثابت ہوگی جو حقیقی طور پر اندر سے اُبھرے گی یا عوامی حمایت سے آئے گی۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ میں جانتا ہوں ہمارے ایک طبقے کے ہاں ایران میں سب اچھا ہے اور ولایت فقیہ کا نظام مستحکم اور ابدی ہے۔ ان کو یہی کہہ سکتا ہوں کہ آپ اپنی عینک سے ٹھیک دیکھ رہے ہیں۔ دیکھتے رہیں۔

Check Also

Pee Ja Ayyam Ki Talkhi

By Syed Mehdi Bukhari