Ijtemai Ishq
اجتماعی عشق
جب کالج میں پڑھتا تھا تو کالج کے ادبی رسالے کے لئے ایک بار ٹوٹی پھوٹی غزل لکھ دی۔ اس ادبی رسالے کا معیار دیکھیئے کہ وہ چھپ بھی گئی۔ اس کے چھپنے کے بعد مجھے میرا ایک دوست پوچھنے لگا " سچ سچ بتانا یار۔۔ تم غزل کیسے لکھ لیتے ہو؟ لڑکیوں کو امپریس کرنے کے لئے مجھے بھی لکھنی ہے"۔۔ میں اسے کہنے ہی والا تھا کہ پہلے کاغذ پر قافیئے لکھ لیتا ہوں جیسے، گانے گئے، لانے گئے، کھانے گئے، نہانے گئے وغیرہ وغیرہ پھر اس میں مضمون فٹ کر دیتا ہوں جس کا تعین دوسرے شعرا پہلے ہی کر چکے ہیں جیسے کہ محبوب کی کمر پتلی ہوتی ہے، رقیب کا چہرہ ولن کا ہوتا ہے، عاشق غم کھاتا ہے اور رات کو تارے گنتا ہے، دنیا رہنے کے لئے موزوں جگہ نہیں، شراب پینا اچھا کام ہے وغیرہ وغیرہ۔۔
لیکن اس سے پہلے میں یہ کہتا وہ بولا " سچ سچ بتاؤ تم نے کس سے عشق کیا ہے؟ کیونکہ عشق کیئے بنا شاعری نہیں ہو سکتی۔ مجھے اس کا نام بتا دو میں تمہارا جگری یار ہوں"۔۔ اس دن مجھے احساس کمتری نے آ شکار کیا کہ شاعری کے لئے عشق کرنا تو از حد ضروری ہے وگرنہ لوگ شاعر نہیں سمجھیں گے۔ رسالے کے مدیر نے میری غزل کو سراہتے ہوئے کہا کہ چھ ماہ بعد اگلے ایڈیشن کے لئے بھی مجھے تم سے غزل چاہیئے ہوگی۔
اب لازم ہو چکا تھا کہ میں چھ ماہ کے اندر کسی کی زلفوں کا اسیر ہو جاؤں، کسی کے خوابوں میں آنے جانے لگوں، کسی کے دل میں گھر کر لوں۔ مگر مصیبت تو یہ تھی کہ میں تو زلفوں کا اسیر ہونے کو مائل تھا مگر کوئی گرفتار کرنے والی بھی تو ہو ناں۔۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا میری پریشانی بڑھنے لگی کہ اگر میں چھ ماہ میں عشق نہ کر سکا تو میرا کیا ہوگا۔ میری شاعری کیسے نکھرے گی۔ یہ بات مجھے کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی کہ جلد از جلد کسی محبوب سے میرا وصال ہو، میں عشق کی اس کیفیت میں جانا چاہتا تھا جس میں جسم سوکھ کر کانٹا ہو جاتا ہے اور عاشق کپڑے پھاڑ کر جنگل بیاباں کی طرف نکل جاتا ہے۔
خدا خدا کرکے ایک موقع ہاتھ آیا۔ مجھے ایک لڑکی کو پڑھانے کو ٹیوٹر کی نوکری مل گئی۔ میں ٹیوشن دینے لگا۔ اس لڑکی کا تعلق ایسے خاندان سے تھا جس کے سب مرد بشمول بھائی و والد دولت کے حصول کو باہر کے ملکوں در در کی خاک چھان رہے تھے۔ گھر میں صرف وہ لڑکی اور اس کی بھابھیاں ہوتیں تھیں۔ پہلے ہی دن مجھے اس لڑکی کے ساتھ اکیلا بٹھا دیا گیا تو مجھے محسوس ہوا کہ شاید عشق کرنے کا اس سے بہتر موقع کبھی نہ ملے۔ یہ صحیح ہے کہ لڑکی کی زلفوں میں وہ پیچ و خم نہیں تھے نہ ہی اس کی آنکھوں میں وہ خمار تھا جو وہسکی کو مات دیتا ہو مگر اس میں عشق کرنے کی اور خوبیاں موجود تھیں جو لازم تھیں۔
مثال کے طور پر وہ امیر گھر کی تھی اور جب میں اس سے اظہار عشق کرتا تو لازمی دھتکارا جاتا۔ اس کے بعد تو میں وہ سب کر سکتا تھا جو عاشق کے لئے لازمی ہوتا ہے جیسے دامن پھاڑنا، خاک اڑانا، ہجر کے رونے رونا۔۔ اس چکر میں میری ٹیوشن تو جاتی مگر لوگ عشق میں جان دے دیتے ہیں نوکری کیا شے تھی۔
میں نے وقت برباد کرنا مناسب نہیں سمجھا اور دوسرے ہی دن اس سے اظہار محبت کر دیا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ پہلے مجھے گالیاں دے گی پھر گھر والوں کو بلوا کر مجھے گھر سے باہر کر دے گی۔ لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے میرا ہاتھ تھام کر اپنی آنکھوں سے لگا لیا۔۔
میں دعویٰ سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کی دونوں بھابھیوں نے یہ سین دروازے کی اوٹ سے دیکھا یا نہیں مگر دوسرے ہی دن ان دونوں بھابھیوں نے بھی مجھ سے درخواست کی کہ وہ اپنی ادھوری تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہیں۔!
میں اس اجتماعی عشق کے لئے ہرگز تیار نہ تھا۔ نہ صرف میں نے آنا جانا بند کر دیا بلکہ اس گلی میں زندگی بھر نہ پھٹکا اور اسی سبب میں پکا شاعر بھی نہ بن پایا۔