Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Hum Pakistani Kamal Log

Hum Pakistani Kamal Log

ہم پاکستانی کمال لوگ

خواتین دروازے پر ایک گھنٹہ کھڑے رہ کر باتیں کر لیں گی لیکن بیٹھیں گی نہیں کیونکہ ان کو دیر ہو رہی ہوتی ہے۔ مرد ایک دو گھنٹے بیٹھ کر سگریٹ پھونکتے باتیں کر لیں گے لیکن اُٹھیں گے نہیں کیونکہ سارے کام کاج انہوں نے ہی کرنے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی آدھے سے زیادہ عوام بیروزگار یا فارغ ہے لیکن بائیک والے نوجوان یوں تیزرفتاری سے کٹ مارتے گزریں گے جیسے جاب سے لیٹ ہو رہے ہیں۔ یہاں ہر ویلا بندہ باؤ بن کر پھر رہا ہوتا ہے۔ پوچھو تو کہتا ہے "پائین امریکا/یورپ ہوندے نیں"۔ 

ہمارے لوگ کمال لوگ ہیں۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سوچ کو بھی سراہتے ہیں اور چیف کی جانب بھی عرضیانہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ قرضہ چین کا اچھا لگتا ہے اور اسلحہ امریکی ساختہ پسند ہے۔ اپنی اپنی فقہی پسندیدگیوں پر ناز کرنا اور مشکوک نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھنا بھی نہیں چھوڑتے۔ مغربی جمہوریت سے بھی نالاں ہیں، مگر سیاسی پناہ کے لیے بہترین ملک برطانیہ اور مغربی ممالک کو سمجھتے ہیں۔ نظام یورپ جیسا چاہتے ہیں مگر قوانین سعودی عرب جیسے۔ جب ایٹمی ہتھیار نہیں تھے تب بھی عدم تحفظ کا شکار تھے اب ایٹمی ہتھیار ہیں تو ان ہتھیاروں کے تحفظ کے لیے پریشان ہیں۔

نوکری سرکاری پسند ہے مگر خواہش بل گیٹس جتنی دولت کمانے کی لیکن بل گیٹس جیسی محنت اور لگن کے بغیر۔ تعلیم کے لیے بچوں کو امریکا بھیجنا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ امریکا برباد ہو جائے۔ لڑکیوں کو پڑھانا لکھانا بھی چاہتے ہیں اور گھر بھی بٹھانا چاہتے ہیں۔

معیشت کی تباہی و مہنگائی پر واویلا مچاتے ہیں مگر پورا ٹیکس دینا سور برابر حرام سمجھتے ہیں۔ پاکستان کو اکنامک ٹائیگر اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کا مقناطیس بنانا چاہتے ہیں مگر اپنے بینکوں سے زیادہ آف شور بینکنگ پر ایمان رکھتے ہیں۔ کمال لوگ ہیں جن کے نزدیک سب سے بڑا قومی مسئلہ رشوت اور کرپشن ہے مگر پوری توجہ کرپٹ نظام کے بینیفیشریز کو ووٹ دینے پر ہے۔

یہ قانون کی مکمل حکمرانی اور مکمل انصاف کے لیے بھی مرے جا رہے ہیں مگر کالے ویگو کی اصطلاح بھی برائے مزاق استعمال کرتے ہیں۔ ووٹ کسی کو دیتے ہیں اور احتساب مخالف کا چاہتے ہیں۔ من پسند سیاسی یا مذہبی شخصیت کو سات خون بھی معاف کر دیتے ہیں اور جس کی شکل پسند نہیں اسے پھانسی لگانا چاہتے ہیں۔ آفرین لوگ ہیں جن میں سے کسی کو یقین نہیں کہ اس فانی دنیا میں ملاوٹ کے ذریعے خلقِ خدا کو مارنے یا کسی کو ذاتی انتقام کے لیے قتل کرنے یا کمزور لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے یا اندھا دھند دولت جمع کرنے یا حرام و حلال کی تمیز ختم کرنے یا کسی کا مال جعل سازی کے ذریعے غصب کرنے پر جہنم رسید ہونے کی پکی پکی نوید ہے۔ مگر سب کو کامل یقین ہے جنت الفردوس میں جانے کا اور وہ بھی مکے اور مدینے میں تدفین کی آرزو لیے۔

کمال ہیں یہ لوگ کہ جو بظاہر جتنا بے بس ہے اس سے ہزار گنا بااختیار ہے اور جتنا دکھائی دیتا ہے اس سے سو گنا پردے میں چھپا ہے۔ سب بظاہر ایک دوسرے کو فیس ویلیو پر لے رہے ہیں۔ الفاظ وہی ہیں مگر گودا غائب ہے۔ میز پر گفتگو کے چھلکوں کا انبار ہے۔ روز ساتھ بیٹھنے والوں میں اب یہ لاشعوری احتیاط اور ٹٹول بھی در آئی ہے کہ اللہ جانے پردے کے پیچھے کیا ہے۔ کہیں یہ بھیڑیا تو نہیں، سور تو نہیں، تیندوا تو نہیں، بندر تو نہیں، طوطا، چڑیا تو نہیں۔ ہو سکتا ہے جسے میں خرگوش سمجھ رہا ہوں دراصل سانپ ہو اور جو کل تک مینا تھی آج وہی مینا دراصل بچھو ہو۔

ہاں یہی سماج تھا جہاں کبھی ننگی آمرانہ فضا میں بھی کوئی بات کہتے ہوئے دائیں بائیں نہیں دیکھنا پڑتا تھا۔ حساس ترین مذہبی و غیر مذہبی معاملات پر دوستوں سے الجھتے ہوئے بھی کوئی اندر سے لگامیں نہیں کھینچتا تھا۔ رک جا، ابے رک جا، پاگل ہوگیا ہے کیا، لیکن اب یوں لگتا ہے کہ ہوا تیز چل رہی ہے مگر سانس رک رہی ہے۔ بظاہر کوئی کسی پر نگراں نہیں مگر ہر کوئی اپنا ہی ہمہ وقت نگراں ہے۔ سب آزاد گھوم رہے ہیں مگر اپنی سوچ اور روح اپنی ہی زنجیروں میں جکڑے ہوئے۔ صرف اس لالچ میں کہ اس جیسی کیسی زندگی کے چند دن اور میسر آ جائیں کہ جس زندگی سے ہر کوئی تنگ ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan