Hastings Da Qabristan
ہیسٹنگز دا قبرستان

مجھے عمر کے ساتھ سب کچھ بھول جائے گا صرف انگلینڈ میں ہیسٹنگز شہر کا قبرستان یاد رہے گا۔ اُمیدِ واثق ہے کہ میرے پڑھنے والوں کو بھی اس تحریر کے بعد دی گریٹ ہیسٹنگز قبرستان نہیں بھولے گا۔ پرسوں صبح لندن سے نکل کر انعام رانا اور ساؤتھیمپٹن شہر سے نکل کر میں حسن معراج بھائی کے ہاں ہیسٹنگز پہنچے۔ حسن معراج انتہائی نستعلیق شخصیت کے مالک ہیں۔ تاریخ و ادب سے ان کا گہرا لگاؤ ہے۔ آؤ بھگت کر چکے تو بولے "ہیسٹنگز شہر تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ چلیں آپ کو یہاں کا قبرستان دکھاؤں"۔ ہم دونوں نے سوچا کہ صبح صبح آغاز میں قبرستان کا وزٹ بالیقین اہم ہوگا اور اپنے اندر ایک جہاں کی تاریخ سموئے ہوئے ہوگا وگرنہ حسن معراج اس قدر زور دے کر کیوں دعوت دے رہے ہوتے۔ ہم چل دیے۔
قبرستان بہت بڑا تھا۔ ویسا ہی خوبصورت بھی تھا جیسے گورا قبرستان ہوتے ہیں۔ ترتیب سے بنیں قبریں۔ قبروں پر لگے بڑے بڑے کتبے یا صلیب۔ گھاس کی بہترین کاٹ چھانٹ۔ پودوں اور درختوں کی قطاریں۔ مرقدوں پر دھرے پھولوں کے گلدستے۔ آخر وہ گاڑی کو ایک جگہ لے گئے اور اس جگہ روک دی گئی۔ باہر نکلے۔ بولے "مہدی، وہ دور دیکھ رہے ہو پون چکیاں؟"۔ دور بہت دور ونڈ ملز تھیں۔ انعام بھائی نے بھی نظر کی عینک اُتار کر دور ٹکٹکی باندھے ان کو بغور دیکھنا شروع کیا۔ ہم دونوں نے یکذبان ہو کر جواب دیا "جی نظر آ رہیں"۔
اس کے بعد حسن معراج نے William The Conqueror کی کہانی بیان کرنا شروع کی۔ کیسے وہ فوج بنا کر آیا اور ان پن چکیوں کے مقام پر لنگر انداز ہوا اور کیسے وہ انگلینڈ کی فوج کو شکست دے کر انگلینڈ کا بادشاہ بن گیا۔ ولیم کی داستان لمبی تھی۔ حسن بھائی نے ضروری سمجھا کہ تاریخی داستان کا ایک ایک موڑ واضح کیا جائے۔ کہانی کے ہر کردار کا بیک گراؤنڈ بھی یوں اُجاگر کیا جائے جیسے انہوں نے اپنی کتاب "ریل کی سیٹی" میں کرداروں کا کیا ہے۔ مجھے لگنے لگا کہ سنہ 1066 کی جنگِ ہیسٹنگز ابھی ابھی ان پن چکیوں کے مقام سے شروع ہو رہی ہے۔
بس بھائیو، قبرستان میں کھڑے کھڑے انہوں نے جنگ پڑھی۔ تفصیل سے چالیس پنتالیس منٹ کا بیان دیا اور پھر چپ ہو گئے۔ اس جنگی تاریخ کا قبرستان کے دورے سے کیا تعلق تھا؟ یہی سوال میرے ذہن نے اُٹھایا۔ میں اب تک یہ سمجھ رہا تھا کہ اس قبرستان میں کسی بادشاہ، یا مشہور جرنیل یا لارڈ یا ولیم کی فوج کے سپاہیوں یا گورنر یا کم از کم لارڈ ہیسٹنگز کی ہی قبر ہوگی جو بنگال کا پہلا گورنر جنرل تھا۔ جب حسن بھائی جنگ پڑھ کر اور تیس پینتیس ہزار فوجی مروا کر چپ ہو گئے تو ہمیں لگا کہ افسوس میں خاموشی اختیار کر گئے ہیں۔ ظاہر ہے خود بھی فوجی افسر رہے ہیں تو ان کو ذرا جذباتی طور پر سنبھلنے کا وقت دیا جائے۔ دو تین منٹ خاموشی رہی۔ پھر بولے "چلیں یہاں سے"۔
اب کے مجھ سے ضبط نہ ہو پایا تو میں نے کہا "حسن بھائی اس قبرستان کا کیا تعلق ہے اس تاریخی داستان سے؟"۔ انعام نے بھی نظر کی عینک تہہ کرکے رکھ دی وہ بھی اب تجسس کی حدیں پار کر چکا تھا اور جواب کا منتظر تھا۔ حسن معراج کا جواب آیا "کچھ نہیں۔ قبرستان ویسے ہی دیکھیں"۔
جواب پا کر رانے کی اور میری پھسپھسی سی ہنسی نکل گئی۔ چنانچہ ہم نے پھر بھی حسن بھائی کے پرزور اصرار کے باوجود قبرستان پر الوداعی نظر ماری اور چلنا چاہا۔ حسن بھائی البتہ گاڑی میں بیٹھ کر بارہا کہتے رہے کہ قبرستان بہت پرسکون مقام ہے۔ میں نے بھی کئی بار کہا حسن بھائی قبرستان جہاں کہیں بھی ہوں پرسکون ہی ہوتے ہیں۔ آپ اگلی لوکیشن پر لے چلیں۔ انعام نے سوچا ہوگا کہ قبرستان کے بعد حسن معراج کی اگلی لوکیشن میدان جنگ ہی ہو سکتا ہے، جہاں جنگِ ہیسٹنگز ہوئی تھی تو اس نے فوراً اعلان کر دیا کہ بس اب ہم ہیسٹنگز شہر کے ساحل پر جائیں گے۔ ساحل پر بیٹھیں گے۔ گورے گورے لوگ دیکھیں گے۔ انسانی حُسن کی تعریفیں کریں گے۔ حسن بھائی آپ ہمیں بیچ پر لے جائیں۔
حسن معراج بھائی کا تورنت جواب آیا "اچھا، میں کبھی وہاں نہیں گیا۔ پر چلو لے جاتا ہوں"۔ یہ سُن کر میں نے کہا "رانا، حسن بھائی صبح اُٹھ کر ہانڈی روٹی کرتے، پھر قبرستان آ کر بیٹھ جاتے۔ وہ قبرستان سے کم ہی باہر نکلتے ہیں۔ بیشک وہ بہت پرسکون مقام ہے۔ وہیں بینچ پر بیٹھ کر لکھتے رہتے ہیں"۔ حسن بھائی نے مڑ کے دیکھا اور کچھ کہتے کہتے رک گئے۔
ہیسٹنگز کا ساحل آ گیا۔ وللہ سارے انگلینڈ میں یہی ایک واحد ساحل تھا جو عین شرعی سا تھا۔ یعنی گورے بھی وہاں مکمل کپڑے پہن کر پھر رہے تھے۔ رانے نے مجھے دیکھ کر کہا "مہدی، ہیسٹنگز دا ساحل تے اینج لگ ریا جیویں نوا نوا مسلمان ہوگیا اے"۔ حسن معراج پھر بولے "میں تو یہاں نہیں آیا کرتا"۔ میں نے پھر کہا کہ کیوں نہیں بھائی جن کو قبروں سے لو لگی ہو ان کا ساحل کی ہوا سے کیا واسطہ؟
اس شرعی ساحل پر چونکہ نہ کرنے کو کچھ تھا نہ دیکھنے کو اس واسطے ہم تینوں وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے رہے اور دوپہر ڈھل کر شام میں بدل گئی۔ حسن بھائی سے رخصت ہو کر لندن کو نکلے تو گاڑی چلاتے انعام بولا "یار حسن کنا سیدھا سادہ شریف جیہا ہے گا۔ صبح ہانڈی روٹی کردا۔ فیر قبرستان جا کے بہہ جاندا۔ اونے تے اج تک بیچ نئیں جے ویخیا"۔ میں نے یاد دلانا چاہا "رانا صاحب، ان کو قبروں کے کتبوں پر لکھی گئی تحریریں بھی یاد ہیں اور یہ بھی کہ سپلینگ مِسٹیک کہاں کہاں کن قبروں کے کتبوں پر ہیں"۔ (انہوں نے ہمیں دو کتبے دکھاتے کہا تھا کہ سپیلنگ دیکھیں ان کے آپ)۔
رات لندن واپس پہنچ کر آئینہ دیکھا تو ساحل کی دھوپ رنگ اڑا چکی تھی۔ شاہ گولڈن فرائی سا ہوگیا۔ لیکن چلو خیر ہے، قبرستان کے وزٹ سے ساحل کی دھوپ بہتر۔ اگلی صبح ایک اور قیامت بیتی۔
انعام نے صبح آٹھ بجے آنا تھا۔ ناشتہ کرنا تھا۔ میں بروقت تیار ہو کر شوگر کی دوا پھانک کر انتظار میں بیٹھ گیا۔ وہ دس بجے آیا۔ اس وقت تک بھوک سے میری حالت خراب ہو رہی تھی۔ فوراً قریبی ریسٹورنٹ "نگینہ" سے حلوہ پوری کھا لی۔ کہنے لگا کہ الفورڈ کا پرانا ریسٹورنٹ ہے اور حلوہ پوری مشہور ہے۔ اس وقت تو جو مل جاتا ٹھیک تھا۔ کھانے کے بعد اس کو ہضم کرنے کے لیے رانے نے مجھے وللہ دس کلومیٹر لندن میں پیدل چلایا۔ نجانے کہاں کہاں سے چلاتا دکھاتا مجھے سینٹرل لندن پھراتا رہا اور ساتھ کہتا رہا "شوگر اسی طرح کم ہوگی ورنہ حلوہ پوری نے تو بہت چڑھا دی ہوئی ہے"۔
نگینہ ریسٹورنٹ کی حلوہ پوری کی بابت یہ کہنا چاہوں گا کہ ان کی پوریوں میں نشہ ہے۔ کھا کر طبیعت سست ہو جاتی۔ ایسا لگتا جیسے بدن ٹوٹ رہا ہو اور قدم بھاری ہو رہے ہوں۔ رانا سے بھی نہیں چلا جا رہا تھا۔ کہنے لگا "میں نے بھی عرصے بعد حلوہ پوری کا ناشتہ کیا ہے۔ اب دل کر رہا کہ بیڈ مل جائے تو سو جاؤں"۔ رانے نے لسی کے گلاس بھی چڑھا لیے تھے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ایسا بھاری ناشتہ کرکے چلنا محال ہے۔ نگینہ والوں کو اپنے ریسٹورنٹ کا نام "نگینہ بیڈ اینڈ بریک فاسٹ" رکھنا چاہئیے۔
سارا دن پیدل چلا کر شام کو رانا بھائی بولے "ناشتہ مینوں سستا پیا اے۔ ورنہ میٹرو، انڈر گراؤنڈ یا بس لیتے تو مزید خرچہ ہوندا۔ ویخ ناں اسی ناشتے دا 18 پاؤنڈز بل دِتا لیکن اوسی وچ سارا دن سینٹرل لندن پیدل پھر گئے"۔
بھئی کیا باتاں حسن دیاں تے رانے دیاں۔ آج انگلینڈ میں آخری دن ہے۔ کل واپسی لاہور اور پھر کیا باتاں بیگم دیاں جو تیار بیٹھی ہے اپنا حساب برابر کرنے۔۔
مولا ہیسٹنگز دا قبرستان آباد رکھے۔ نگینہ حلوہ پوری دی خیر۔

