Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Har Kamyab Mard Ke Peeche Aurat Ka Hath Hota Hai

Har Kamyab Mard Ke Peeche Aurat Ka Hath Hota Hai

ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے

ساڑھے چار سال قبل مجھے بطور کنسلٹنٹ یو این جوائن کئے چار ماہ ہوئے تھے کہ ایک دن میری باس میڈم نے مجھے کال کی "تم یونیسکو کا کام کرنا چاہو گے؟ ان کے پاس کوئی اچھا فوٹوگرافر نہیں اور وہاں سے عارضی طور پر ارینج کرنا مہنگا پڑتا ہے۔ چار دن کا کام ہے پیسے میں تم کو اچھے دلا دوں گی۔ کنٹری ہیڈ نے مجھ سے ریکوئسٹ کی ہے کہ اگر اپنا کوئی بندہ بھیج دو تو اچھا ہے۔ "۔ میں نے فوراً حامی بھر لی۔

چار دن کے لیے میڈم اور میں وینس چلے گئے۔ وینس میں قدیمی چرچ سینٹ مارکس کو یونیسکو نے ری سٹور کیا تھا۔ مائیکل اینجلو کی دیو ہیکل سائز پینٹنگ تھی، جس کے کلرز فیڈ ہو رہے تھے۔ کچھ ری سٹرکچرنگ کی گئی تھی۔ ان کی ہائی ڈیفینیشن تصاویر درکار تھیں۔ قسمت کا کرنا یوں ہوا کہ جس روز وینس لینڈ ہوئے اسی رات وینس میں سمندری سیلاب آ گیا۔ وینس کی گلیاں پانی میں ڈوب گئیں۔ سمندر چڑھ آیا تھا اور ایسا کئی دہائیوں بعد ہوا کہ وینس ڈوب گیا ہو۔ مئیر نے ایمرجنسی نافذ کر دی۔ نظام زندگی درہم برہم ہوگیا۔ ہمارے ہوٹل کی لابی میں ٹخنوں ٹخنوں پانی بھر آیا تھا۔ ایسی صورتحال میں ہمیں ایمرجنسی ایگزٹ کا پلان ملا۔ کام معطل کرکے ہم نے ٹیکسی لی اور میلان چلے گئے۔ ٹیکسی والے نے اس صورتحال میں ہم سے لاہوری سلوک روا رکھا۔ یعنی کرایہ چار گنا بڑھا دیا۔ ہماری واپسی کی ٹکٹس وینس کی بجائے میلان سے ہوگئیں۔

آخری دن کی شام میڈم اور میں میلان کی شاپنگ سٹریٹ میں گھومنے گئے۔ وہاں ایک بڑے سے سٹور میں داخل ہوئے جہاں ایک بڑا سا کارنر گیجٹس اور کیمرا وغیرہ کے سامان سے لدا ہوا تھا۔ میں اس جانب چلا گیا۔ ان دنوں نائیکون D850 اپنے عروج پر تھا۔ میرے پاس نہیں تھا۔ مجھے وہ لینا تھا۔ ابھی اتنی گنجائش نہیں بن پا رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ وہ کیمرا سپیشل پروموشن پر لگا ہوا ہے۔ اس کی قیمت 3300 یورو تھی، مگر وہاں 2900 یورو میں لگا ہوا تھا۔ اس پرائس کو دیکھ کر میں ذہن میں کیلکولیشن کر رہا تھا کہ لے لوں تو بینک خالی ہو جائے گا اور چھوڑ دوں تو پھر اتنا سستا کہاں سے مل پائے گا۔

اسی کیلکولیشن اور کنفیوژن میں مصروف اسے دیکھتا رہا۔ اچانک ایک سیلز گرل آگے بڑھی۔ مجھے فارنر جانتے ہوئے انگریزی میں کہنے لگی اگر آپ کو چاہئیے تو سپیشل ڈسکاؤنٹ پر موجود ہے۔ میں نے انکار میں سر ہلا دیا۔ وہ چلی گئی۔ اسی اثناء میں باس مجھے ڈھونڈتے آ نکلی۔ باس کا تعلق مصر سے تھا۔ عمر پچاس سے اوپر تھی مگر ان کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے پینتیس چالیس سالہ خاتون ہوں۔ مزاجً وہ انتہائی خوش اخلاق خاتون تھیں۔ مجھے ان جیسی باس نہیں مل سکی۔۔

مجھے سوچ و بچار کرتے دیکھ کر بولیں" کیا خیال ہے؟ تم نے کیمرا لینا ہے ناں؟"۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا " میڈم مل تو سستا رہا ہے لیکن پھر بھی اُنتیس سو یوروز میرے لیے خرچ کرنا ابھی ممکن نہیں۔ اگر لے لیا تو پھر اپنے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ "۔ میڈم نے سُن کر سمائل دی " اچھا کتنے ہیں تمہارے پاس؟ پندرہ سو یورو مجھے دو۔ باقی مجھے قسطوں میں لوٹا دینا۔ اوکے؟"۔ یہ آفر سن کر میں نے انکار میں سر ہلاتے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہا مگر وہ بولیں" کوئی جلدی نہیں۔ میں تمہاری باس ہی رہوں گی۔ آہستہ آہستہ لوٹا دینا۔ ابھی لے لو۔ "

قصہ مختصر انہوں نے خرید لیا۔ میں نے اس وقت ان کو پندرہ سو یورو دئیے اور بقیہ چودہ سو یوروز کا ادھار مجھ پر تھا۔ اس وقت میں بہت خوش تھا۔ اگلی صبح ہماری واپسی تھی۔

واپس آئے ابھی ایک ہفتہ ہی بِیتا تھا کہ مجھے ایک پراجیکٹ ملا۔ اس سے اچھی خاصی آمدن ہوگئی۔ میں نے سوچا فوراً میڈم کا ادھار چکا دوں۔ ان کو کال کی۔ انہوں نے آگے سے حیران کن جواب دیا " ٹینشن نہیں لو تمہارے پیسوں کا انتظام ہو چکا ہے"۔ پھر انہوں نے مجھے بتایا کہ ایمرجنسی کی صورتحال میں ایک سپیشل ایمرجنسی فیلڈ الاؤنس بھی ایڈ ہو جاتا ہے اور علاوہ اذیں DSA ریٹ یعنی ڈیلی فوڈ اینڈ اکاموڈیشن ریٹس بھی دوگنے ہو جاتے ہیں۔ میں نے اپروول لے لی ہے۔ تمہارے اکاؤنٹ میں ڈپازٹ ہو جائیں گے۔ پھر لوٹا دینا۔ چار پانچ دن بعد مجھے ڈپازٹ ہو گئے۔ پھر ان کو لوٹا دئیے۔

انہوں نے میرے واسطے بہت فیور کی۔ صرف اس لیے کہ یہ اپنا من پسند کیمرا لے لے۔ اس کے کچھ ماہ بعد ان کی پاکستان سے ٹرانسفر ہوگئی۔ اور گذشتہ روز وہ پاپوا نیو گنی سے اپنی مدت ملازمت پوری کرکے رئیٹار ہوگئیں ہیں۔ ان کو میں نے بیسٹ وشز کے پیغامات بھیجے ہیں۔ میڈم واپس اپنے ملک مصر جا رہی ہیں۔ مجھے کہنے لگیں کہ اب تم مصر کو وزٹ کرو۔ اب تو تمہارے پاس اس کیمرے سے بھی بہتر کیمرے ہیں۔

پہلا کیمرا مجھے میری ماں نے کمیٹی ڈال کر دلوایا۔ وہ کوڈیک کا پاکٹ سائز ڈیجیٹل کیمرا تھا۔ ڈیڑھ میگا پکسل۔ سنہ 2004۔ دوسرا کیمرا میں نے جیسے تیسے پیسے جوڑ کر خود خریدا تھا۔ نائیکون D40 چھ میگا پکسل۔ سنہ 2006۔ تیسرا کیمرا مجھے شادی کے بعد میری سابقہ بیگم نے تحفہ دیا۔ پاپا کی پرنسز نے پاپا سے خریدوا کے مجھے دیا۔ ان دنوں نئی نئی شادی تھی اور یہ اس کی مہربانی تھی۔ اس کیمرے کے ساتھ یوں ہوا کہ وہ نلتر جھیل کے اطراف فوٹوگرافی کرتے ٹرائی پوڈ سے گرا اور پانی میں ڈوب گیا۔ دراصل ٹرائی پوڈ سستا سا تھا۔ جو توازن کھو بیٹھا تھا اور پانی میں جا گرا۔ اس کی ایک اور بہت بڑی مہربانی تھی۔ وہ یہ کہ اس کے بعد جب میں گھر پہنچا تو میری صورت دیکھ کر اس نے تسلی دیتے کہا " کوئی بات نہیں کیمرا آ جائے گا"۔ میں نے انکار کر دیا کہ بس اپنے والد کو نہ کہہ دینا مجھے یوں نہیں چاہئیے۔

اس نے گولڈ کا سیٹ نکلا اور میرے سامنے رکھتی بولی " یہ وہی سیٹ ہے جو امی (میری والدہ) نے مجھے شادی پر دیا تھا۔ یہ بیچ لو اور کیمرا لینز لے لو۔ اپنا سیٹ نہیں تمہیں تمہارا ہی دے رہی ہوں۔ بعد میں نیا بنوا دینا"۔ میں نے وہ لے لیا۔ مجھے کیمرا لینا تھا۔ اس کے دو ڈھائی سال بعد میں نے اسے نیا گولڈ سیٹ واپس کر دیا۔

اس شوق کے سفر میں میں ان سب خواتین کا مشکور ہوں۔ میڈم بان، میری اماں اور سابقہ بیگم۔ موجودہ بیگم بھی کہ اس نے مجھے سفر کرنے اور کام کرنے پر کبھی روک ٹوک نہیں لگائی بلکہ ہمیشہ میرے پیچھے گھر کو سنبھالتی ہے اور مجھے سفر میں ڈسٹرب نہیں کرتی۔ جو کچھ آپ کے سامنے آتا رہا ہے۔ اس کے پیچھے بہت قربانی کی داستانیں ہیں۔ بہت کچھ جھیلا ہے اور بہت کچھ مجھ سے وابستہ رشتوں نے میرے شوق کے سفر میں مجھ پر قربان کیا ہے۔ پائی پائی جوڑ کر سفر کئیے ہیں۔ وہ وقت تو بیت چکا ہے مگر مجھے نہیں بھول سکتا۔

ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور میرے پیچھے تین چار عورتیں رہیں ہیں۔

Check Also

Kahani Aik Deaf Larki Ki

By Khateeb Ahmad