Hanifa Aur Baba
حنیفہ اور بابا

اندرون لوہاری گیٹ میں واقع سُوتر منڈی گلی سے جرم کی دنیا کے دو مشہور قاتل اُبھر کر سامنے آئے جن کے چرچے لاہور گینگ وار کے دوران رہے۔ ان کی دہشت نے بلا ٹرکاں والا اور اس کے بیٹے ٹیپو ٹرکاں والا کو بھی متاثر کر رکھا تھا۔ بلآخر ان دونوں کے ہاتھوں ہی بلا ٹرکاں والا قتل ہوا۔ اس کے بارے میں ایک روز قبل لاہور گینگ وار پر لکھی تحریر میں بتا چکا ہوں۔ حنیف عرف حنیفہ اور شفیق عرف بابا۔
یہ دونوں سگے بھائی تھے۔ یہ دونوں بھائی پہلے پیشے کے اعتبار سے راج مستری تھے اور ایسے راج مستری جو اپنی مہارت میں کافی مشہور تھے۔ ان کی اور بھی عجب شہرت تھی۔ حنیفہ کو سوتر بازار اندرون کے لوگ حاجی صاحب پکارتے تھے اور لوگ اس کی عزت بھی کرتے تھے۔ اس نے چار حج کر رکھے تھے اور سر پر ہر وقت نمازیوں والی ٹوپی بھی رکھتا تھا۔ حنیفہ اور بابا کی ماں نیک چلن عورت تھی۔ اس کے بارے مشہور ہے کہ وہ روز علیٰ الصبح سوتر والی گلی سے ننگے پاؤں چلتی ہوئی داتا دربار حاضری دیتی اور پھر وہاں سے نکل کر کربلا گامے شاہ پر لگے علم پر اگربتیاں سلگانے چلی جاتی۔ جب تک ان کی ماں زندہ رہی یہ دونوں بھائی بڑی بڑی مصیبتوں سے بچ نکلتے رہے۔ یہ روائیتی بریلوی سنی خاندان تھا لیکن اندرون لاہور کا مذہبی کلچر شیعہ سُنی کی تفریق سے آزاد تھا۔
ایک بار حنیفہ ظہیر عرف ہانڈا نامی بدمعاش کے قتل کے الزام میں بند تھا۔ اس نے منت مانی کہ اگر میں محرم سے پہلے رہا ہوگیا تو دس محرم کے جلوس پر زنجیر زنی کروں گا۔ وہ محرم سے پہلے ضمانت پر چھوٹ گیا۔ اندرون لاہور کے لوگوں نے دیکھا کہ حاجی صاحب نے دس محرم کو زنجیر زنی کی۔
شہرت کے ساتھ ان دونوں کا کردار بھی منفرد تھا۔ یہ ذاتی دشمنی میں اور اجرت پر قتل کرنے میں تو بے رحم تھے مگر بچوں اور عورتوں کے بارے بہت حساس تھے۔ مثلاً دو مقام پر دلچسپ واقعات ان کی ذات کے بارے سامنے آتے ہیں۔ جن دنوں یہ دونوں بھائی بلا ٹرکاں والا اور ٹیپو ٹرکاں والا کو مارنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ ایک دن پلان فائنل کرکے یہ ان باپ بیٹا کو مارنے کار پر نکلے۔ شاہ عالم چوک میں بلا اور ٹیپو عین سڑک پر کھڑے تھے۔ بلے نے اپنا نو ماہ کا پوتا ٹیپو کا بیٹا امیر بالاج اُٹھا رکھا تھا۔ یہ دونوں کاشنکوف لیے گاڑی سے یکدم باہر نکلے۔ انہوں نے اسلحہ تانا۔ بلے اور ٹیپو کو موت سامنے کھڑی نظر آئی۔ اچانک شفیق عرف بابا نے حنیفہ کو آواز دی " اوئے بچہ نال اے، چل چلئیے" اور پھر دونوں نے جاتے جاتے بلے کو مخاطب کرکے کہا " اسی بچے نوں نئیں ماردے۔ اج جی لے۔ فیر ملاں گا"۔ یوں بالاج کی معصومیت نے اپنے باپ اور دادا کی جان بچا لی تھی۔
دوسرا واقعہ اس طرح کا ہے کہ لاہور کے ایک اور مشہور ڈان ارشد امین چوہدری کو قتل کرنے کے ارادے سے جیسے ہی دونوں بھائی آئے۔ گلی میں سائیکل چلاتے بچے نظر آئے۔ سامنے ان کا دشمن ارشد امین نہتا کھڑا تھا۔ یہ دونوں بچوں کی موجودگی کے سبب اس کی جان بخشی کرتے اسے چھوڑ کر وہاں سے بھاگ گئے۔ ارشد امین کو انہوں نے کچھ عرصہ بعد قتل کر دیا تھا۔
حنیفہ اور بابا تعمیر اور تخریب (قتل) دونوں سے شناسا تھے۔ ان کرداروں کو سمجھنے کے لیے ان کا بیک گراؤنڈ سمجھنا ضروری ہے۔ ان کا والد عیدو پہلوان تھا۔ اندرون لاہور میں پہلوانی کا کلچر تھا۔ عیدو پہلوان کی ایک چھوٹی سی بیکری شاپ تھی جو مقامی گلیوں میں مشہور تھی۔ آج سے چھتیس سال پہلے ایک دن عیدو پہلوان غائب ہوگیا۔ اس کا معلوم نہیں ہو سکا کہ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ یہ دونوں بھائی باپ کے بعد مالی تنگی کا شکار ہو گئے۔ بیکری بند ہوگئی۔ راج مستری کی مزدوری سے گزارا نہ ہوا تو انہوں نے اجرت پر بدمعاشی کا آغاز کیا۔ کسی سیٹھ کے کہنے پر سیٹھ کے قرضدار سے قرض نکلوانا ہو یا کہیں دکان مکان پر قبضہ کرانا ہو وغیرہ جیسے کام بھی کرنے لگے اور پھر یہ بلا ٹرکاں والا کے اڈے پر بیٹھنے لگے۔ بلا ٹرکاں والا کا ان کے والد عیدو پہلوان سے پہلوانی کے سبب بہت اچھا دوستانہ بھی تھا۔ بلے نے ان کو منہ بولا بیٹا بنا لیا اور ان سے اپنے کام نکلوانے لگا۔ یہ دونوں بھائی ٹیپو ٹرکاں والا کو بھائی کہتے تھے اس کی ہر بات پر عمل کرتے تھے۔
گینگ وار والی تحریر میں باقی کہانی لکھ چکا ہوں کہ کیسے ان دونوں کی ٹرکاں والا خاندان سے دشمنی پیدا ہوئی اور ایک دن انہوں نے بلا ٹرکاں والا کو قتل کر دیا اور کیسے گوگی و طیفی بٹ کے ہاں بلے کو قتل کرنے کے بعد انہوں نے پناہ لی اور پھر ٹیپو پر قاتلانہ حملے شروع کیے جن میں ٹیپو بچ نکلتا رہا اور ان کے حملوں سے زچ ہو کر وہ فیملی سمیت دبئی منتقل ہوگیا۔
ٹرک اڈے پر بیٹھے ایک دن ظہیر عرف ہانڈا نامی بدمعاش سے ہنسی مزاق میں بات شروع ہوئی اور پھر گالی کے سبب اس نہج پر پہنچی کہ حنیفہ نے کھڑے کھڑے طیش میں آ کر ہانڈا کا قتل کر دیا۔ اس کا ذکر اوپر کر چکا ہوں۔ بلے ٹرکاں والے نے پولیس اور کچہری میں اثر و رسوخ استعمال کرکے اس کی ضمانت کرا لی۔ کچھ عرصے بعد بابا اور حنیفہ نے ایک عورت کے بھائی کا قتل کیا جو ان کی بہن سے لڑ پڑی تھی۔ حنیفہ اور بابا کی ایک بہن بھی تھی۔ اس کی کسی بات پر ایک عورت سے منہ ماری ہوگئی۔ ان دونوں بھائیوں نے گلشن راوی میں اس عورت کے گھر جا کر اس کے بھائی کا قتل کر دیا کیونکہ بھائی ان سے الجھ پڑا تھا۔ اس کے بھائی کو قتل کرنے کے بعد عورت کو یہ کہہ کر چلے گئے "ہم عورت ذات کو نہیں مارتے ورنہ آج بھائی کی جگہ تیری لاش پڑی ہوتی"۔ اس مقدمے میں حنیفہ نے سات ماہ جیل کاٹی اور پھر سیاسی آشیرباد کے طفیل سے باہر آ گیا۔ لاہور میں ایک سیاسی شخصیت نے اس کا مقتول خاندان کے ساتھ راضی نامہ اور معافی نامہ کروا دیا تھا۔ اس سیاسی شخصیت کا نام نہیں لکھوں گا وہ آج بھی پاور میں ہیں اور نام لکھنے سے مسئلہ ہو سکتا ہے۔
بلا ٹرکاں والا کو قتل کرنے کے بعد یہ دونوں فرار ہو کے لنڈی کوتل چلے گئے جہاں بدنام زمانہ گینگسٹر بھولا سنیارا نے اپنا اڈہ بنا لیا ہوا تھا۔ وہ علاقہ غیر تھا۔ کچھ عرصہ یہ اس کے مہمان رہے۔ اگلے پانچ سال انہوں نے ٹیپو کو قتل کرنے کی کاوشوں میں لگائے۔ تین بار اس پر حملے کیے۔ انہوں نے مشہور ڈان ارشد امین چوہدری کو بھی قتل کیا جو محمد خان جونیجو سابقہ وزیراعظم پاکستان کا دوست تھا۔ جونیجو صاحب جب لاہور ہوتے وہ ارشد امین کے ساتھ ہی پائے جاتے تھے۔ حنیفہ اور بابا نے تاجروں سے بھتہ خوری کے ساتھ اجرتی قاتلوں کا بھی کردار ادا کیا۔ مجموعی طور پر انہوں نے تیرہ قتل کئیے۔ ان کو سیاسی لوگوں کی پشت پناہی حاصل رہی۔ ان کے پولیس افسران کے ساتھ تعلقات بنے اور ان کا انجام بھی ایک ایسے پولیس افسر کے ہاتھوں ہوا جس کے بارے پولیس کی اپنی رپورٹ ہے کہ وہ دبئی میں حنیفہ اور بابا کے ساتھ کچھ کاروباری معاملات میں انویسٹر تھا۔ انسپکٹر نوید سعید۔
ہوا پھر یوں کہ شاہ عالم مارکیٹ، اندرون لاہور کے تمام بازاروں کے انجمن تاجران کے صدور ایک بار جمع ہو کر اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو ملتے ہیں اور ان سے حنیفہ اور بابا کے خاتمے کی درخواست کرتے ہیں۔ تاجر برداری ان دونوں کی بھتہ خوری اور قتل و غارت سے تنگ آ چکی تھی۔ ملاقات کے بعد فوری طور پر ایک ٹیم بنائی جاتی ہے ایس ایس پی لاہور ملک احمد رضا طاہر کو کہا جاتا ہے حنیفہ اور بابا زندہ یا مردہ جیسے بھی ہو پکڑو۔ انسپکٹر نوید سعید کی رپوٹیشن پولیس مقابلہ کرنے میں بہت اچھی تھی (یا خراب تھی جو بھی آپ کہنا چاہیں)۔ اس کو یہ ٹاسک دیا جاتا ہے۔ حنیفہ اور بابا مفرور تھے اور کراچی میں تھے۔ پولیس کو ان کی مخبری ہو جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے مخبری کرنے والا ٹیپو ٹرکاں والا تھا اور ٹیپو کو بتانے والا حنیفہ اور بابا کا جگری یار منظر داؤد تھا جو خود گینگسٹر اور حنیفہ کا ساتھی تھا مگر اس نے پیسوں کے لالچ میں ٹیپو ٹرکاں والا کو انفارمیشن دے دی تھی۔
انسپکٹر نوید لاہور سے ٹیم لے کر کراچی پہنچتا ہے۔ حنیفہ کے ٹھکانے پر چھاپہ مارتا ہے۔ اس وقت بابا وہاں موجود نہیں ہوتا۔ لیکن حنیفہ پکڑا جاتا ہے۔ اسے فلائٹ سے لاہور لایا جاتا ہے۔ لاہور ائیرپورٹ پر حنیفہ کو لینے دیگر پولیس افسران موجود ہوتے ہیں۔ تین دن حنیفہ کو انارکلی تھانے کی حوالات میں رکھا جاتا ہے۔ چوتھے دن انسپکٹر نوید اسے نکالتا ہے۔ گاڑی میں ڈال کر لاہور کے اطراف کالا خطائی کے مقام پر لے جاتا ہے۔ اگلے روز تمام قومی اخباروں میں شہہ سرخی لگتی ہے "بدنام زمانہ اجرتی قاتل اور بھتہ خور حنیف عرف حنیفہ پولیس مقابلے میں ہلاک"۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق حنیفہ کو 108 گولیاں لگیں۔ انسپکٹر نوید کی ٹیم نے اسے بھون کر رکھ دیا تھا۔ سوتر منڈی لوہاری گیٹ کی مساجد سے حنیفہ کے جنازے کے اعلانات ہوئے۔ "حاجی حنیف ولد عیدو پہلوان قضائے الہیٰ سے انتقال فرما گئے ہیں"۔ حنیفہ کے جنازے پر ہزاروں لوگ تھے۔ اندرون لاہور کا بڑا جنازہ تھا۔
حنیفہ کے بھائی شفیق عرف بابا نے انسپکٹر نوید پر پانچ بار قاتلانہ حملہ کیا۔ دو بار انسپکٹر نوید کو گولیاں لگیں مگر دونوں بار وہ بچ گیا۔ بابا نے اپنی پسند سے شادی کی تھی۔ اس کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی۔ انسپکٹر نوید بابا کی کمزوری جان گیا تھا۔ اس نے سول اہلکاروں کی بابا کی رہائش کے باہر فیلڈنگ لگا دی۔ ایک دن بابا کی بیوی گھر سے نکلتی ہے۔ ریلوے سٹیشن جاتی ہے اور کراچی جانے والی ٹرین پر سوار ہو جاتی ہے۔ وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ اس کا کوئی پیچھا کر رہا ہے۔
ٹھیک دو روز بعد انسپکٹر نوید کراچی میں ایک جگہ چھاپہ مارتا ہے۔ بابا پکڑا جاتا ہے۔ اس کو گاڑی میں جیسے ہی ڈالا جاتا ہے انسپکٹر نوید اسے چھ گولیاں گاڑی میں ہی مار دیتا ہے۔ مردہ بابا لاہور لایا جاتا ہے۔ لاش مردہ خانے بھیجی جاتی ہے۔ اگلے روز اخباروں میں وہی خبر چھپتی ہے جو حنیفہ کی باری چھپی تھی۔ جنازہ بھی ویسا ہی بڑا ہوتا ہے۔
حنیفہ اور بابا کی قبریں میانی صاحب قبرستان میں ساتھ ساتھ ہیں۔ سنہ 2003 میں انسپکٹر نوید کو پولیس سروس سے کرپٹ پریکٹسز کے الزام میں برخاست کر دیا گیا۔ دو سال بعد گیارہ نومبر سنہ 2005 کو انسپکٹر نوید سعید کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ انسپکٹر نوید نے دوران سروس پچاس جعلی پولیس مقابلے کئیے تھے۔ اس نے بدنام زمانہ گینگسٹرز کو پار لگایا تھا جن میں حنیفہ اور بابا کے علاوہ ہمایوں گجر، ناجی بٹ، ثنا گجر اور کالی شامل ہیں۔ اس کا قاتل آج تک نامعلوم ہے۔

