Halaat Shandaar Hain
حالات شاندار ہیں
حالات شاندار ہیں۔ ملٹی سکرین سینما ہاؤس "مملکتِ الباکستانیہ" میں ہر شو ہاؤس فل، ہر کہانی ایکشن تھرلر سسپنس۔ تھیٹر نمبر ون اسلام آباد میں WWE Smackdown شو عمران خان بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ، تھیٹر نمبر ٹو پنجاب میں مریم دا کھڑاک، تھیٹر نمبر تین خیبر پختونخواہ میں مولا جٹ 2، تھیٹر نمبر چار سندھ میں کیری آن مراد شاہ، تھیٹر نمبر پانچ بلوچستان میں آرٹ فلم "گھنگھرو ٹوٹ گئے" نمائش کے لیے پیش ہیں۔ تھیٹر نمبر چھ سینٹ گولڈ پلیکس میں ون مین سٹینڈ آپ کامیڈی شو پندرہ مارچ سے نمائش کے لیے حاضر ہے۔
ہر کہانی میں کوئی موڑ اگرچہ کسی کردار سے پوشیدہ بھی نہیں مگر کسی کردار کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اگلا موڑ کون سا ہے۔ ہر کردار سب کچھ اور سب کو جاننے کا دعویدار ہے مگر کوئی کردار خود نہیں جانتا۔ ایڈیٹنگ ایسی کمال کہ کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ کس سین میں کون کب ولن سے ہیرو اور پھر کامیڈین بن کے دوبارہ ولن یا ہیرو کا روپ دھار لے۔ کوریو گرافی اتنی شاندار کہ کسی بھی آئٹم سانگ میں مرکزی کردار اچانک سے ایکسٹرا بن جاتے ہیں اور ایکسٹرا سب کچھ پھلانگتے ہوئے مرکزی کرداروں میں تبدیل ہو کر پھر ایکسٹرا کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔
یہ ایک ایسی ریاست کا سٹیج ہے جو بیک وقت خود سے اور دنیا سے نبرد آزما ہے۔ حسنِ انتظام اس قدر انہونا کہ ایک ہی اداکار دو دو تین تین کردار نبھا رہے ہیں۔ مثلاً نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس چئیرمین پی سی بی کا عہدہ بھی تھا، نگراں وزیرِ اطلاعات عملاً وزیرِ ڈانٹ ڈپٹ و دھمکی میں بدل چکے ہیں۔ ایجنسیاں جعفر جن بنی ہوئی ہیں، ہیں بھی اور نہیں بھی۔ وزیر خارجہ کا پتہ نہیں اور سپاہ سالار نئی حکومت کے معائنے پر ہیں۔
معیشت بھی ہماری قسمت کی طرح نیچے ہی نیچے ہو رہی ہے۔ مگر موجودہ اور آنے والے نامعلوم وزیر خزانہ کو نہیں معلوم کہ کل نوازشریف صاحب کے سامنے پیش ہونا ہے یا وزیراعظم کے سامنے یا سپاہ سالار کے روبرو اور کیا چاہیے؟ عدلیہ اپنا کام بھی کر رہی ہے اور جمہوری اداروں کی بے بی سٹنگ کا بوجھ بھی کاندھوں پر ہے۔ الیکشن کمیشن ہر صبح کام شروع کرنے سے پہلے فال نکالتا ہے کہ آج وہ کتنا بے بس اور کتنا بااختیار ہے۔
پر خدا کا شکر ہے کہ ان تمام اداروں اور کرداروں کو قومی و عوامی مفاد جان سے زیادہ عزیز ہے، کسی کو ہوسِ اقتدار نہیں، ہر کوئی ریاست اور اس کے انتظام کے بارے میں فکر مند ہے، ہر کوئی شاندار مستقبل کا خواہاں ہے اور ہر کوئی جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا ہے۔
ویسے تو یہ حالات ایک دن میں معمول پر آ سکتے ہیں اگر صرف ایک اجتماعی عہد کر لیا جائے کہ اس ملک کو ٹام اینڈ جیری سیریز کے تحت نہیں آئین کے تابع چلانا ہے۔ مگر حالات اگر خدانخواستہ معمول پر آ گئے تو روزِ حشر اقبال کو کیا منہ دکھائیں گے؟
پلٹنا جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ