Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Geo Jani

Geo Jani

جیو جانی

عارف انیس بھیا نے فلیٹیز ہوٹل لاہور میں اپنی نئی کتاب کی تقریب رونمائی رکھی ہے اور مجھ ناچیز کو گیسٹ سپیکرز میں ڈال دیا ہے گوکہ میں نے عرض کی کہ بھیا عطا الحق قاسمی، فرخ سہیل گوئندی، گل نوخیز اختر سمیت دیگر مصنفین کی حاضری میں مجھے خاموشی پسند ہوگی مگر وہ مانے ہی نہیں۔ میں نے سوچا کہ چلیں پھر کچھ لکھ ہی لوں۔ آخر کچھ تو بولنا پڑے گا۔ تحریر ابھی ادھوری اور رف عمل کے مترادف ہے۔ شاید عارف اسے پڑھ کر اپنا ارادہ بدل دے۔ وگرنہ پھر مضمون مکمل کر دوں گا۔

"سچی بات تو یہ ہے کہ عارف انیس سے محبت، دل لگی اور پیار کا رشتہ ہے۔ مگر میں باقاعدہ اعلان کرتا ہوں کہ عارف انیس بھیا کے ہاتھ پر بیعت کر رہا ہوں۔ تاریخ بنی آدم میں پہلا موقع ہوگا کہ سادات نے کسی کی بیعت کی۔ وجہ کرشماتی و معجزاتی ہے۔ کوئی نامور شخصیت مر جائے، کسی کا کاکا پیدا ہو جائے، کسی کی تقرری یا تبادلہ ہو جائے۔ ہر امر کے پیچھے کہیں نہ کہیں عارف بھیا کا ہاتھ یا تو نکلتا ہے یا وہ اس شخص کو جانتے ہوتے ہیں۔ دنیا کی ہر سلیبرٹی سے وہ بالمشافہ ملاقات کر چکے ہیں۔ برطانوی شاہ چارلس ہو یا نوم چومسکی، اینجلینا جولی تا ڈونلڈ ٹرمپ۔ بس مجھ سے ہونا باقی تھی۔

کئی دفعہ ایسا ہوا کہ عزرائیل بندہ اٹھانے لگا تو ایگزٹ گیٹ پہ اسے دوسرے فرشتے نے روک لیا کہ بھائی۔۔ پہلے یہ تو چیک کر لے کہ اس بندے کو عارف انیس بھیا مل چکے ہیں یا نہیں؟ آج جب عارف بھائی میرے سامنے موجود ہیں تو اب مجھے یہ بے چینی ستانے لگی ہے کہ عزرائیل کو میرے نام کا گیٹ پاس ایشو ہوگیا ہوگا۔

عارف کی شخصیت کرشماتی ہے۔ آپ اسے ہمیشہ ویل ڈریس دیکھیں گے۔ عارف انیس کے بارے ایک دوست کہنے لگا کہ عارف بھیا کے پاس دو مہنگے بلیک ٹیکسیڈو سوٹ ہیں۔ جو وہ باہر نکلتے زیبِ تن کر لیتے ہیں مگر گھر میں ایک لال ڈبیوں والا کچھا ہے اور ایک نیلی ڈبیوں والا جن کو زیبِ تن کرکے وہ سارا گھر لشکا دیتے ہیں۔ پھر وہ فری ہو کر ٹیکسیڈو نکالتے ہیں اور پہن کر باہر چلے جاتے ہیں۔ خیر، یہ المیہ تو گھر بسائے ہر انٹلکچوئل کے ساتھ رہے گا۔ میں خود ابھی اخبار سے کھڑکیوں کے شیشے چمکا کر آ رہا ہوں۔ میں نے پوچھا تو عارف بولا " ایسی باتیں مشہور لوگوں کو بدنام کرنے کے واسطے پھیلائی جاتیں ہیں۔ تمہیں یقین نہیں تو لندن آ کر خود دیکھ لو کہ میرے پاس دو نہیں چار ٹیکسیڈو ہیں الحمدللہ"۔

عارف کی شخصیت کا بڑا پہلو تو پی آر (پرسنل ریلیشنز) ہے مگر ساتھ ساتھ وہ موٹیویشنل سپیکر بھی ہے۔ موٹیویشنل سپیکر کا کام آپ کو اس بات پر اندھا یقین دلانا ہے کہ جو کرنا ہے آپ نے ہی کرنا ہے۔ انفرادی طور پر آپ کو ہی سب کچھ کرنا ہے۔ یعنی وہ اس بات سے آپ کو لایقین کردیتا ہے کہ ریاست کی کوئی ذمہ داری بھی ہے۔ آپ نے ڈگری لے کر خود کوئی کمپنی کھولنی ہے پھر اس کو بلندیوں پر لے کر جانا ہے پھر اپنی ہی کمپنی میں خود اپلائی کرنا ہے۔ لوگوں کی ایسی ذہن سازی کرنا ہے کہ آپ نے خود کو خود ہی پریگننٹ کرنا ہے۔ مانو جیسے یوں سمجھیں کہ لوگوں کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ میں نے ریسٹورنٹ کا کامیاب بزنس صرف ایک چاول کے دانے سے شروع کیا تھا۔

مگر عارف کی منفرد خوبی یہ ہے کہ وہ صرف بولتا ہی نہیں لکھتا بھی ہے۔ اور اس کا ثبوت آپ کے ہاتھ میں اس وقت موجود ہے۔ آج کے دور میں جب نئی نسل کتابوں سے دور اور سکرین کے قریب ہو چکی ہے کتاب لکھنا اور پھر اس کو چھاپنا بہت حوصلے کا کام ہے اور یقیناً عارف حوصلے کا بندہ ہے۔ رہا یہ سوال کہ آج کے دورِ ناگہانی میں کتاب کون پڑھتا ہے تو اس کا جواب بھی سامنے موجود ہے۔ آپ سب بیٹھے ہیں ناں۔

میں نے ابھی تک کتاب کا سرورق ہی پڑھا ہے "جیو جانی"۔ یقیناً عارف ہم سب کو "جانی" کہہ رہا ہے۔ جواباً میں بھی کہنا چاہتا ہوں"جیو جان" مگر یہ بھی تو بتاؤ کہ تمہارے جیسا جینے کو سرمایہ کہاں سے لائیں جانی؟"

Check Also

Hamzad

By Rao Manzar Hayat