Gaali Kyun Bardasht Karen?
گالی کیوں برداشت کریں؟

اخلاقیات کا بوجھ دو طرفہ ہوتا ہے۔ یا تو میں نے نامناسب الفاظ میں مضمون لکھا ہو یا کسی قائد کی شان میں گستاخانہ الفاظ لکھ دیے ہوں کبھی تو بتائیے۔ آپ، جناب، قائد، صاحب کرکے سب کے ساتھ لکھتا ہوں اور پھر جو گالی دینے آئے اسے چلتا کرتا ہوں۔ گوکہ گالی دینے والا یا بدتمیزی پر اترنے والا اسی زبان میں جواب کا حقدار ٹھہرتا ہے مگر نہیں دیا کہ اس کے منہ کیا لگنا اسے بس چلتا کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اگلا گالی برداشت کر رہا ہے۔ مجھے کم و بیش دنیا کی سات زبانوں میں گالیاں آتیں ہیں۔ چھ سمندر تو میں نے بھی دیکھ رکھے ہیں۔ کئی بار کہا کہ اپنے جیسے کو فالو کیا کریں جہاں سے آپ کو آپ کی جماعت کی فیڈنگ ملتی رہے۔ اگلے کے عضو خاص پر پینگ ڈال کر جھولنا مناسب نہیں ہوتا۔
بھئی اپنی رائے کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ آپ اپنی کا کیجیے۔ مگر یہ کیا وطیرہ ہوا کہ سیدھا گالم گلوچ اور ذاتیات پر اُتر آنا۔ پھر آپ میں کچھ گروسری کے کہتے ہیں کہ برداشت کیا کریں۔ کیوں کریں برداشت؟ گالی کوئی برداشت کرتا ہے؟ ارے حضور، جب فوج کی الفت میں آپ سیاسی نونہالوں نے دوسروں کو نیا نیا پشی پوٹی کہنا سیکھا تھا ہم تب بھی مقتدرہ کی مداخلت کے سخت خلاف تھے۔ میرا اصول نہیں بدلا آپ کے حالات بدلے ہیں۔ اسی مقتدرہ کی کرتوتوں پر لکھ لکھ کر یہ پرؤفائل بھری پڑی ہے اور جیسے شاپر آندھی میں اڑ کے آ جاتے ویسے ہی کچھ نئے شبالو آ جاتے ہیں جن کو اگلے کا کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کس نظریات یا خیالات کا مالک ہے۔ بس انہوں نے آزو بازو دیکھے بنا اپنی پارٹی کا جھنڈا اُٹھا کر ننگا ناچ شروع کر دینا ہوتا ہے اور یہ سیاسی مشتعل لوگ کن لیڈران کی محبت میں گالی دیتے ہیں؟
میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو بمبینو سینما کا کام سنبھالا کرتا تھا۔ جس کو اس کے والد نے اپنے دوست کے ہاں ایڈجسٹ کروا دیا اور یوں سیاست میں قدم ایک بڑے سیاسی خاندان میں شادی کے سبب پڑ گیا۔ اپنی اہلیہ کے بل بوتے پر اس کو سیاسی عمل میں اہم کردار ملا۔ شان بینک سکینڈل، مرتضیٰ بھٹو مرڈر کیس، سمیت متعدد مالی سکینڈلز میں اس کا نام مسٹر ٹین پرسنٹ کے طور پر سامنے آیا۔ اہلیہ نے اپنی اور پارٹی کی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے اسے کئی سال پارٹی سے دور رکھا اور امریکہ روانہ کر دیا۔ سرے محل کیس میں عدالتی پیشی سے استثنیٰ حاصل کرنے کو جس نے اپنی ذہنی حالت کے غیر متوازن ہونے کا سرٹیفکیٹ عدالت میں پیش کر دیا۔ اہلیہ کی موت سے حالات بدلے اور وہ مقدر کا سکندر ٹھہرا۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کا سہرا ان کے سر جاتا ہے اور آج وہ اس ہائبرڈ پلس نظام میں خود کو جمہوری چیمپئین کہلواتے ہیں۔
میں ایسے شخص کو بھی جانتا ہوں جس کو جنرل ضیاء کا رائٹ ہینڈ جنرل جیلانی سیاست میں لایا۔ لانا تو وہ اس کے چھوٹے بھائی عباس کو چاہتے تھے مگر ابا جی نے یہ کہتے انکار کر دیا "عباس نوں سیاست وچ نہیں دینا، میرا کاروبار کون سنبھالے گا؟ اے کُگا (مذکورہ شخص کا نِک نیم) لے لو"۔ پنجاب کا وزیر خزابہ بنا تو جنرل ضیاء کو برسر عام اپنا روحانی والد قرار دے دیا۔ پھر چیف منسٹر بنا۔ قرض اتارو ملک سنوارو سکیم سے ملک کا قرض تو نہ اتر سکا البتہ سنہ 92 میں فئیر فلیٹس خریدے گئے۔ پیلی ٹیکسی سکیم آئی تو کاروبار تیزی سے پھیلا۔
دستِ شفقت سر پر رہا تو تین بار وزیراعظم بھی بنا اور تینوں بار عادت مہم جوئی کے سبب نکالا گیا۔ تیرہویں آئینی ترمیم میں خود کو "امیر المومنین" قرار دینے کی خواہش رہی۔ مقدر نے وہ دن بھی دکھائے اٹک جیل میں طیارہ ہائی جیک کیس بھگتا مگر اسی بھگتان کے دوران سعودی شاہی فرمان کا آسرا لیے جدہ تشریف لے گئے۔ دس سال گوشہ نشین رہے اور مسلسل جھوٹ بولتے رہے کہ کوئی معاہدہ کرکے نہیں آیا۔ وہ تو پھر قطری شہزادے کو خود اسلام آباد آ کر معاہدہ ہوا میں لہرانا پڑا۔ پھر واپس آئے پھر وزیراعظم بنے اور پھر پانامہ لیکس میں نام آ گیا اور یہ بھی خود کو جمہوری چیمپئین کہلواتے ہیں۔
میں ایک ایسے شخص کو بھی جانتا ہوں جس نے جنرل حمید گل کے کہنے پر سیاست میں قدم رکھا اور پارٹی بنائی۔ جنرل مجیب الرحمن کو پارٹی کا جنرل سیکرٹری بنایا۔ جس نے سنہ 2002 میں جنرل پرویز مشرف کو اس لیے ووٹ ڈالا کہ کرپٹ سیاستدان واپس نہیں آنے چاہئیے۔ جو مشرف کے صدراتی ریفرنڈم میں مشرف کا بخوشی پولنگ ایجنٹ بنا۔ جس پر جنرل پاشا نے نظر کرم کیا تو سنہ 2011 لاہور کا جلسہ بریک تھرو ثابت ہوا۔ جس نے سنہ 2014 میں جنرل ظہیر السلام کی سیٹی پر ڈی چوک میں دھرنا دئیے رکھا۔
جو جنرل راحیل (ایمپائر) کی انگلی اُٹھنے کے انتظار میں رہا۔ جس کو جنرل باجوہ نے 2018 میں آر ڈی ایس سسٹم بٹھا کر اقتدار حوالے کیا۔ جس نے ملکی خارجہ، داخلہ اور خزانہ پالیسی جرنیلوں کے آگے سرنڈر کر دی۔ جو اپنے من پسند جرنیل کو عہدے پر برقرار رکھنے کی ضد میں اڑا رہا۔ جس نے عدم اعتماد روکنے کے بدلے جنرل باجوہ کو ایک اور ایکسٹینشن کی آفر کر دی اور جو اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد اینٹی اسٹیبلشمنٹ انقلابی اور جمہوری روایات کا کسٹوڈین بن چکا ہے۔ جو آج بھی جرنیلوں سے بات کرنے کو بانگیں دیتا رہتا ہے۔
جو جہاں فٹ ہے فٹ رہے مگر دوسرے کے ساتھ الجھنے یا بدتمیزی کرنے کا حق کسی کا نہیں ہوتا۔ اگر آپ ان لیڈران کی محبت میں احترام آدمیت کا دائرہ توڑنے پر تُل چکے ہیں تو پھر آپ کے ساتھ مقتدرہ سفید کرے یا سیاہ کرے کون پرواہ کرے گا؟ جب آپ اپنے لیڈران کو لے کر جمہوریت اور جمہوری روایات کے گُن گانے آتے ہیں تو کم از کم مجھے ہنسنے کی اجازت تو دے دیا کریں۔ ان کی محبت میں جب دوسرے کو گالی دیتے ہیں تو پھر چار گالیاں اپنے انٹلیکٹ یا خود کو بھی دے لیا کریں۔ دھنے واد۔

