Fazul Karchiyan
فضول خرچیاں
ہوا کچھ یوں کہ شادی تو اوائل نوجوانی میں ہی کر لی، اس کے بعد ساری عمر بور ہوتا رہا۔ ایک دن ہنگری کے دارلحکومت بداپسٹ کے ہوٹل کی لابی میں بیٹھا " چیک ان" کا انتظار کر رہا تھا۔ سامنے ہی صوفے پر ایک لڑکی میگزین پڑھنے میں مصروف تھی اور میں لابی میں چلتے پھرتے لوگوں کی ہلچل دیکھتا اک بار اس کی طرف متوجہ ہوا تو وہ بھی اِدھر ہی دیکھ رہی تھی۔ اس نے پیاری سی سمائل دی تو میں نے بھی باچھیاں پھیلا دیں۔
روم سروس والا گورا چٹا نوجوان آیا اور مجھے میرے کمرے میں پہنچا کر چلا گیا۔ کمرہ عالی شان قسم کے ڈیکور سے سجا ہوا تھا۔ پانچ منٹ بعد میں نے سوچا کہ یہاں بیٹھ کر کیا کروں لہذا ہوٹل لابی میں واپس آ گیا۔ وہ لڑکی تو وہاں نہیں تھی، البتہ اسی جگہ ایک ہینڈسم لڑکا بیٹھا اپنا موبائل چیک کر رہا تھا۔ میں نے بیزاری سے منہ بنایا کہ مدعا ہی غائب ہو چکا تھا۔
لڑکے نے موبائل سے سر اٹھایا تو مجھے سامنے دیکھ کر مسکراتے ہوئے ہیلو بولا۔ میں نے بھی مسکراتے ہوئے Hi کہہ دیا۔ پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں سے آیا ہوں تو میں نے پاکستان کا نام لے لیا۔ وہ پھر موبائل میں بزی ہو گیا۔ کبھی کبھی سر اٹھا کے سمائل دیتا تو میں بھی ویسا ہی جواب دے دیتا۔ یہ سلسلہ بیس پچیس منٹ چلا۔ میں تو لابی میں آتے جاتے لوگوں کی نقل و حمل دیکھتا رہا۔
اچانک اس لڑکے نے مجھے اپنا وزٹنگ کارڈ دیا اور بولا " don't hesitate to call me if you want a good company" مجھے کچھ کچھ شک تو پڑا کہ مسئلہ گڑبڑ ہے، مگر میں نے یہ سوچ کر شکریہ ادا کرتے ہوئے، اس کا کارڈ لے لیا کہ شاید یہ از رہ مروت ایسا کہہ رہا ہے یا ہو سکتا ہے، بہت خوش اخلاق انسان ہو۔ بھائیو، ہوا کچھ یوں کہ جب وہ جانے لگا تو اس نے مجھ سے ہینڈ شیک کرنے کو ہاتھ آگے بڑھایا۔
جیسے ہی میں نے اس سے ہاتھ ملایا مجھے یقین ہو گیا کہ یہ وہ نہیں جو یہ ہے اور جو یہ ہے وہ سہنے کے قابل نہیں۔ کیٹ واک کرتا وہ ہوٹل کی لابی میں چلنے لگا۔ پھر اس نے مڑ کے دیکھا اور مسکراتے ہوئے زنانہ انداز میں ہاتھ کے اشارے سے ڈھیلا ڈھالا بائے بائے کیا۔ مجھے شدید غصہ آیا مگر دیار غیر میں کیا کہہ سکتا تھا۔ دانت بھینچتے ہوئے میں واپس اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گیا۔
دروازے پر دستک ہوئی۔ روم سروس والی ایک حسینہ چہرے پر مسکان سجائے کھڑی تھی۔ اس کو دیکھتے ہی میرا سارا غصہ رفو ہو گیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کمرے میں ہر چیز پراپر ہے؟ مجھے کچھ چاہیئے تو نہیں؟ میں نے اسے جواب دیا کہ سب سیٹ ہے ٹینشن ناٹ۔ وہ سن کر مسکرائی تو دل نجانے کیوں کرنے لگا کہ اسے ٹپ دی جانی چاہیئے۔ 20 یورو کی خطیر رقم اسے ٹپ دی تو اس نے آنکھیں ٹپٹپاتے شکریہ ادا کیا۔
اس کے جانے کے بعد ساری رات مجھے بہت ملال ہوتا رہا کہ 20 یورو جذباتی ہو کر کیوں دے دیئے۔ رات گئے واٹس ایپ پر بیگم کی کال آئی۔ بیگم فرمانی لگی کہ وہاں سے یاد سے نیل پالش اور ریمور لے آیئے گا، آپ کو پراڈکٹ کا نام بھیجا ہے۔ اسی کمپنی کی چاہیئے اور اسی رنگ کی چاہئیے۔ میں نے واٹس ایپ پر تصویر دیکھی تو ساتھ پرائس مینشن تھی 24 یورو۔
میں نے دیکھتے ہی بیگم کو کہا کہ ایسی فضول خرچیاں نہیں ہو سکتیں۔ اتنے پیسے تھوڑی ہیں۔ یہاں اور بڑے خرچے نکل آتے ہیں۔