Fathers Day Aur Abba Ji Ka Widaa
فادرز ڈے اور ابا جی کا وداع

کہتے ہیں عالمِ بالا میں ایک بہت پھیلاؤ والا گھنا درخت ہے جس پر ہمیشہ ایک ہی وقت میں خزاں اور بہار چھائی رہتی ہے۔ جب تیز ہوا کے جھونکے آتے ہیں تو کچھ پیلی مُرجھائی پتیاں ٹوٹ کر گر جاتی ہیں اور اسی طرح نیچے دنیا میں، جہاں فنا کو قیام ہے، انسان بچھڑتے رہتے ہیں۔ مجھے تو ہوا کی آواز میں موت کی ندا سنائی دیتی ہے جو عالمِ بالا میں پکار پکار کر ہمارے ناموں کے پتے گراتی رہتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تمام جدائیوں، محبتوں اور شکستوں میں ہوا کا ہاتھ ہے۔ ہوا ہی خوشبوؤں اور سُروں کو پھیلاتی اور مٹاتی ہے۔ ہوا میں ہی نوحے اور زخم خودگی کی ایسی کیفیت ہے جو تمام انسانی دُکھوں سے ماورا ہے۔ جس شام ابا کی موت ہوئی اس شام تیز جھکڑ چلے تھے۔ جگر کا سرطان بھگتتے ابا آخری دموں پر تھے۔ حالتِ نزع یا کومے کی حالت طاری تھی اور اس میں خون کی الٹیاں مسلسل آ رہی تھیں۔ بستر مرگ خون سے لت پت تھا۔ اماں تولیہ لیے سرہانے بیٹھی تھی اور خون کو پونچھتی جا رہی تھی۔۔
ڈاکٹر قمر حمید قریشی نے گھر چکر لگایا۔ وہ فیملی ڈاکٹر تھے۔ دیکھ کر بولے "دعا کریں ان کی اذیت جلد ختم ہو۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا بیٹا۔ حوصلہ رکھو اور گھر والوں کو سنبھالو۔ "وہ یہ کہہ کر رخصت ہو گئے۔ شیخ زید ہسپتال لاہور کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر انوار اے خان صاحب تھے۔ انہوں نے مجھے ایک ماہ قبل کہا تھا "یہ آخری سٹیج ہے۔ ان کو خون منہ کے راستے یا پاخانے سے آنے لگے تو بیٹا سیالکوٹ سے لاہور لانے کی تکلیف نہ اُٹھانا۔ تمہارا خرچہ ہوگا اور اب کوئی علاج ممکن نہیں ہوگا"۔
ڈاکٹر قریشی کے جاتے ہی میں گھر سے باہر کفن دفن کے انتظام دیکھنے گیا تھا۔ گورکن آندھی سے پناہ لیتے چہرہ کپڑے سے ڈھانپتے بولا "کون مرا ہے؟ اس کا کوئی بڑا بوڑھا نہیں ہے؟"۔ شاید وہ پہلی بار کسی بیس اکیس سالہ نوجوان سے قبر کے معاملات پوچھنے پر حیران تھا۔
نہیں ہے اور میرے والد کا انتقال ہونے والا ہے۔
ہونے والا ہے؟ ابھی ہوا نہیں ہے؟ (گورکن کو شاید کچھ پل کو لگا ہو کہ بچہ اس سے گھناؤنا مزاق کرنے تو نہیں آ گیا۔ اس نے دھول مٹی سے لبریز آندھی سے بچنے کی خاطر اپنا ڈھانپا ہوا چہرہ کھول دیا۔)
نہیں۔ جب میں گھر سے آیا تھا تب تک نہیں ہوا تھا۔ تم اپنی فیس اور قبرستان کمیٹی کے چارجز بتاؤ اور مجھے جگہ دکھاؤ۔
گورکن نے یہ سنتے ہی اپنے بڑے بھائی کو بُلا لیا۔ وہ دونوں مل کر مجھے جگہ دکھانے لگے اور بار بار ایک ہی سوال پوچھتے "تمہارا کوئی بڑا نہیں ہے؟"۔ میں نے تنگ آ کر کہہ دیا "چاچا نہیں ہے۔ میں ہی ہوں جو ہوں"۔ شاید مجھ پر ترس کھا کر بڑے گورکن نے مجھے ایک جگہ دکھائی اور بولا "یہ بہترین جگہ ہے۔ اوپر درخت کی چھاؤں ہے۔ سایہ دار جگہ ہے۔ پکی مٹی ہے۔ ویسے نہ بتاتا پر تم بچے ہو تمہیں ان معاملات کی سمجھ نہیں"۔
متوسط اور غربت زدہ گھروں میں موت مرنے والے کے لیے راہ نجات ہو سکتی ہے مگر اہلخانے کے واسطے زندگی بھی موت بن جاتی ہے۔ اہل محلہ، جاننے والوں اور عزیزوں کی آنکھیں آپ کو گھورتیں ہیں۔ ان نظروں میں ترس برستا رہتا ہے۔ ہمدردانہ نگاہوں کے عقب میں دل نرم پڑتے ہیں تو وہ آپ سے پوچھتے ہیں "کسی شے یا رقم کی ضرورت ہو تو بتانا" اور آپ یوں نہیں کہہ سکتے کہ ہاں ضرورت ہے دے دو۔ ان سب عزیزوں کی مہربانی جنہوں نے مرنے کے بعد میری مدد کرنا چاہی اور ان سگے رشتوں کا بھی شکریہ جنہوں نے صرف جنازے پر مجھے اپنا چہرہ دکھایا۔
ان دنوں میرا ایک دوست سائبر انٹرنیٹ سروسز میں کسٹمر سپورٹ کی نوکری کر رہا تھا اور اس نے میری سی وی لے کر اپنی کمپنی کے ہیڈ کو بھیج رکھی تھی۔ مجھے یقین دلا رکھا تھا کہ تمہاری پرماننٹ نوکری ہو جائے گی۔ میرا انٹرویو ابھی ہونا تھا۔ میں نے اسی دوست سے رقم ادھار لی کہ اگر نوکری ہوگئی تو تنخواہ سے کٹوا دوں گا اور انتظامات کرکے گھر آ گیا۔ میرے گھر پہنچنے کے ایک گھنٹے بعد ابا کی روح پرواز کر گئی۔ گھر میں کہرام سا مچا تو میں گھر سے باہر نکل گیا۔ موٹورولا کے موبائل سے گورکن کو کال کی "ہاں اب تم جلدی کر سکتے ہو۔ شاید رات بارہ بجے جنازہ آ جائے اس سے پہلے قبر تیار کر لینا" اور مجھے یاد ہے تب ہوا ایکدم رک چکی تھی۔ پتہ بھی نہیں ہل رہا تھا۔
جنازہ رات کو نہیں ہو سکا۔ اس کی وجہ دور دراز سے لوگوں کا جمع ہونا تھا۔ جس جس کو اطلاع ملتی گئی وہ آتا گیا اور کچھ ابا کے پرانے کاروباری دوست تھے کچھ میرا ننھیال تھا۔ جنازہ اگلی صبح دس بجے ہوا۔ ابا کو میں نے خود قبر میں اُتارا۔ سب نارمل رہا۔ مجھے رونا نہیں آیا۔ میں آج بھی سوچتا ہوں کہ مجھے اس وقت رونا کیوں نہیں آیا تو خود پر حیرانگی ہوتی ہے۔ رویا تو میں کئی دنوں بعد اس دن تھا جس دن خالہ شاہدہ گھر آئیں۔
بھلے دنوں میں گھر میں اماں کا ہاتھ بٹانے کو ماسی آیا کرتیں۔ ان کا نام شاہدہ تھا۔ اپنے نام کے عین مطابق وہ میرے آنگن کی اک اک خوشی و غمی کی شاہدہ تھیں۔ صبح سویرے وہ آ جاتیں اور شام ڈھلے تک گھر کے سارے نظام سنبھالتیں سوائے ہنڈیا و کچن کے۔ اماں کھانا خود بنایا کرتیں۔ یہ وہ دور تھا جب والد صاحب مالدار تھے اور ان کا کاروبار عروج پر تھا۔ شاہدہ بی بی کو میں خالہ پکارا کرتا تھا۔ خالہ نے مجھے بچپن سے ہوش سنبھالنے تک اپنی گود میں کھلایا۔ بھاگنے دوڑنے کی عمر آئی تو خالہ میرے پیچھے ہوتی اور میں گلیوں میں ان سے چھپتا چھپاتا اپنے ہم عمروں کے ساتھ بنٹے کھیلنے میں مگن رہتا۔ جب خالہ مجھے آن پکڑتیں تو بازو تھامتیں اور سیدھا گھر تک کھینچتے لے جایا کرتیں۔
اماں کو جب میری اس حرکت کر غصہ آتا تو جیسے ہی وہ مجھے مارنے کو بڑھتیں بیچ میں خالہ آ جاتی۔ وہ ڈھال بن کر کھڑی ہو جاتیں اور کہتیں "جانے دو آپا، ابھی چھوٹا ہے۔ میں سمجھاوں گی تو سمجھ جائے گا"۔ اماں کا غصہ ٹھنڈا پڑتا تو مجھے دیکھ کر بولتیں "دیکھ وعدہ کر تو آج سے بنٹے کھیلے گا ناں ان آوارہ لڑکوں کے ساتھ بلا مقصد گلیوں میں گھومنے جائے گا"۔۔ میں ڈر کر وعدہ کر لیتا اور اگلے دن بھول جاتا۔ یہ روز کا معمول تھا۔ خالہ نے مجھے پکڑنا ہوتا اور اماں سے جاں بخشی بھی کروانی ہوتی۔ اب خیال آتا ہے کہ اماں بھی یہی چاہتی تھی کہ کوئی بیچ میں آ کر میرے اکلوتے سپوت کو میرے غصے سے بچا لیا کرے۔ اماں نے خالہ کے ہوتے مجھے کبھی نہیں مارا۔
زمانہ بدلتے وقت نہیں لگا۔ جہاں تین وقت کا کھانا دو وقت پر آیا یعنی صبح و رات بس، وہاں خالہ شاہدہ کی تنخواہ کہاں سے نکلتی۔ خالہ چلی گئی۔ اس کو اپنے بچے بھی پالنے تھے۔ وہ کسی اور کے ہاں ملازمت کرنے لگیں۔ اکثر یوں ہوتا کہ وہ اماں کو ملنے اور مجھے دیکھنے آ جایا کرتیں۔ زندگی کے دس بارہ سال انہوں نے اسی گھر میں صبح تا شام بتائے تھے۔ اماں بھی شاہدہ کو دیکھ کر خوش ہو جاتیں اور وہ دونوں گئے وقتوں کے قصے لے کر بیٹھ جاتیں۔
وقت کا پہیہ گھومتا رہا۔ خالہ کا آنا جانا متروک ہوتا گیا۔ ان کو دور کہیں اور ملازمت ملی جس سے وقت نکالنا ممکن نہ رہا تھا۔ اماں صبح سکول جاتی۔ شام کو گھر کی صفائی ہوتی، پھر رات کے کھانے کی تیاری اور رات ڈھل جاتی تو اماں سو جاتیں۔ اس مشقت بھری زندگی نے اماں کو چپ لگا دی تھی۔ انہوں نے ساری عمر اسی سخت معمول میں بسر کر دی۔
خالہ شاہدہ کو جب کسی طرح اطلاع ملی ابا کو گزرے مہینہ بھر گزر چکا تھا۔ سالوں بعد خالہ کو دیکھا۔ بڑھاپے نے چہرے پر جھڑیاں ڈال دی تھیں۔ جس دن خالہ موت کی خبر سن کر گھر آئی تو میں اکیلا تھا۔ نجانے کیوں اس کو دیکھتے ہی میرے آنسو بہہ نکلے۔ خالہ نے مجھے گلے سے لگایا تو اس کی دھاڑ میرے آنسووں میں ڈھل گئی۔ اس دن جی بھر کر رویا۔ نہ خالہ کے آنسو تھمتے تھے نہ میرے۔
وہ آخری دن تھا جب خالہ کو دیکھا۔ اس کے بعد خالہ کبھی نہیں ملی۔ اک بار میں ان کا پتا کرتے ان کے پرانے گھر گیا تو معلوم ہوا کہ وہ یہاں سے کب کی جا چکیں۔ کرائے کا مکان تھا بدل لیا۔ کیوں بدل لیا اور کہاں گئیں کسی سے معلوم نہ ہو سکا۔ پتا نہیں زندہ ہیں یا نہیں۔ ہیں تو کیسی ہیں۔ وقت نے کیسے کیسے رشتوں پر خاک ڈال دی ہے۔ وقت کی یہی خوبصورتی ہے کہ وہ جیسا بھی ہو گزر جاتا ہے اور یہی المیہ بھی۔۔
آج فادرز ڈے پر والد کی یاد آتی رہی تو ماضی بھی یاد آتا رہا۔ یہ تحریر بس نوحہ ہے۔ کبھی کبھی مندمل زخم کسی نہ کسی سبب ہرے ہو ہی جاتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں جان سکتا کب کونسے لمحے پھیپھڑوں کو بھرتی آکسیجن بوجھل ہو کر آہ میں ڈھلتی باہر نکلے۔ حضرت علی (ع) کا ایک قول ہے جو ایسے مواقعوں پر مجھے یاد آ جاتا ہے۔
"زندگی میں اگر کڑا وقت نہ آئے تو اپنوں میں چھُپے ہوئے غیر اور غیروں میں چھُپے ہوئے اپنے ہمیشہ ہی چھُپے رہتے ہیں"۔

