Dubai Yatra Aur Swimming
دوبئی یاترہ اور سوئمنگ

دبئی کے ہوائی اڈے پر اُترا تو امیگریشن کاؤنٹر پر موجود اماراتی خاتون نے مجھے جاتے جاتے مفت میں موبائل سِم تھما دی۔ میں نے ائیرپورٹ میں بیٹھے ہی سِم کو ایکٹو کیا تو ہولناک انکشاف ہوا۔ محض سات دنوں کے لیے ڈیٹا ایکٹو کرنے کے واسطے DU ٹیلی کام نے دو سو اماراتی درہم (پندرہ ہزار پاکستانی روپے) جتنی خطیر رقم کریڈٹ کارڈ سے مانگ لی۔ اس خبر غم سے پہلے تک تو سب کول کول تھا۔ گرمی تو سم ڈالنے کے بعد محسوس ہوئی۔ ائیرپورٹ سے باہر نکلا تو تتے توے جیسے گرم دبئی نے والہانہ استقبال کیا۔
اس سے قبل جب بھی آنا ہوا کسی نا کسی کام سے آنا ہوا لیکن اس بار دورہ سراسر جذبہ خیر سگالی پر مشتمل تھا۔ میں وہاں کچھ ذاتی خوشگوار یادیں سمیٹنے کے ساتھ اپنے بین الاقوامی تعلقات کو مزید فروغ دینا چاہتا تھا۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی میں رات گئے تک ایک شیشہ کلب میں براجمان رہا۔ ایپل، منٹ، پیچ اور لیمن فلیور کے حقے ٹرائی کیے۔ رات تین بجے جب اُٹھنا چاہا تو بیرے نے مجھے اٹھنے نہ دیا اور بل لے آیا۔ شیشہ حقے کا بل 120 درہم بنا جسے دیکھ کر کچھ better feelings نہیں آئیں۔
خیر، جیسے ہی بل ادا کرکے رخصت ہونا چاہا توں ہی ایک صاحب آن پہنچے اور مجھے کہنے لگے "آپ کو کہیں دیکھا ہوا ہے آپ میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں ناں؟"۔ میں نے جواب دیا کہ نہیں بھائی میڈیا سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور نکلنا چاہا۔ انہوں نے پھر کہا "آپ کی شکل ذہن میں آ رہی ہے، نام نہیں آ رہا۔ میں نے آپ کو دیکھا ہوا ہے"۔ میں نے سوچا کہ یہ صاحب بل ادا کرنے سے پہلے ملتے تو ان کو تعارف بھی کروا دیتا، اب کیا فائدہ۔ اب بس سر کھپائی ہی ہوگی۔ سو ان کو ہنستے ہوئے جواب دیا "بھائی میری شکل کے دبئی میں انگنت ساؤتھ انڈین گھومتے رہتے ہیں"۔ اس بھائی نے ایک بار پھر گھور کے دیکھا اور راہ خالی کر دی۔
جس ہوٹل میں قیام رہا وہ میریٹ دبئی تھا۔ مجھے ایک دوست کے طفیل وہاں اچھا خاصہ ڈسکاؤنٹ ملا اور مجھے انہوں نے کمرہ بھی وہ دے دیا جس سے ملحقہ اوپن ائیر چھوٹا سا سوئمنگ پول تھا۔ اگلے دن دوپہر تک سویا رہا۔ دو بجے آنکھ کھُلی۔ باہر تتی ہوا چل رہی تھی۔ میں نے سوچا چل شاہ اج سوئمنگ پول ٹرائی کریں۔ کمرے کے ملحقہ ٹیرس پر پول کنارے کھڑے ہو کر آزو بازو نظر دوڑائی۔ اوپر کچھ کمروں کی گیلریز تھیں مگر وہاں نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ مکمل تسلی کرکے میں نے کچھے کے ساتھ پول میں قدم جمائے۔ مزہ ہی آ گیا۔ ٹھنڈا ٹھنڈا پانی تھا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ کنارے پر منہ میں ڈالنے والی نلکی بھی پڑی ہے جو سوئمنگ کرتے کچھ لوگ ہوا لینے کے واسطے منہ میں ڈال لیتے ہیں اور واٹر پروف سوئمنگ گلاسز بھی ساتھ دھرے ہیں۔
میں نے سوچا آج سوئمنگ کی ٹرائی بھی ہو ہی جائے۔ ہوا والی نلکی اور گلاسز اُٹھائے۔ نلکئی منہ میں ڈال کر اور سوئمنگ گلاسز چڑھا کر پول میں اُترا۔ پھر خیال آیا کہ کچھے کے ساتھ تیرانا مشکل ہے۔ میں نے کچھا اتار کر پول کنارے باہر پھینک دیا۔ ابھی پول میں آدھ کھڑا سوئمنگ پوسچر بنانے اور تیرنے کی کوشش کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اوپر والے کمرے کی بالکونی کھُلی۔ ایک شخص سگریٹ پھونکنے بالکونی میں آ گیا۔ میں الف ننگا ڈر کے مارے پانی کی اندر بیٹھ گیا۔ صرف ہوا والی نلکی پول سے باہر تھی۔ اس خبیث نے نیچے دیکھا۔ مجھے شک ہے اس نے مجھے دیکھ کر اپنی گرل فرینڈ کو بھی پرلطف منظر دکھانے کو بلا لیا۔ وہ دونوں سگریٹ پھونکنے لگے۔ میں اس انتظار میں پانی کے اندر بیٹھا رہا کہ یہ دونوں دفع ہوں تو باہر نکل کر کچھا پہنوں۔
وثوق سے نہیں کہہ سکتا چار منٹ لگے یا پانچ منٹ۔ البتہ وہ دونوں سگریٹ پھونک کر بالکونی سے چلے گئے۔ میں نے پانی سے سری نکالی۔ لمبے لمبے سانس لیے۔ وللہ اگر منہ میں نلکی نہ ہوتی میں وہیں شرم سے ڈوب کے مر چکا ہوتا۔ فوراً باہر نکل کر کچھا اُٹھایا اور کمرے میں گھس گیا۔ شام کو مجھے ایک جگہ جانا تھا۔ تیار ہو کر باہر نکلا۔ وہی جوڑا لفٹ میں مل گیا۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر پرجوش سمائل دی۔ میں نے بھی ہنس کے گڈ ایوننگ کہہ دیا۔ جیسے ہی گراؤنڈ فلور پر لفٹ رکی مرد نے باہر نکلتے ہنس کے کہا "نائس ڈائیونگ"۔ میں نے شرمندہ ہونے کی بجائے اعتماد سے جواب دیا "سو نائس آف یو" اور ہوٹل سے باہر نکل گیا۔
مجھے اچھے سے یاد ہے میں نے اس موقعہ پر موبائل سے دو تصاویر لے کر بیگم کو واٹس ایپ کیں کہ دیکھو میں سوئمنگ کرنے جا رہا۔ ان میں منہ میں نلکی ہے، چہرے پر سوئمنگ گلاسز ہیں اور میں ڈھیلی ڈھالی باڈی لیے آدھا پول میں کھڑا ہوں۔ اس کا بڑی سی سمائلی کے ساتھ جواب آیا "آپ کارٹون لگ رہے۔ باز آ جائیں ایسی حرکتوں سے۔ ڈوب نہ جائیے گا"۔ کاش اس وقت اس کی مان لی ہوتی۔ اس نے وہ تصاویر محفوظ رکھی ہوئی ہیں کبھی کبھی دھمکی دیتی ہیں کہ کسی دن میں وہ آپ کے سٹیٹس کے نیچے پوسٹ کر دوں گی یا انعام رانا بھائی کو بھیج دوں گی۔ وہ فوراً پوسٹ کر دیں گے اور آپ وہ ڈیلیٹ بھی نہ کر سکیں گے۔
زندگی کا وہ پہلا اور آخری موقع تھا جب میں نے سوئمنگ کی کوشش کرنا چاہی۔ اب بس ساحل یا پول کنارے دوسروں کو نہاتے دیکھ کر خوش ہوتا رہتا ہوں۔ کل ہی بیٹا مجھے نجانے کیوں پوچھنے لگا "بابا آپ کو سوئمنگ آتی ہے؟"۔ میں نے جواب دیا "سوئمنگ؟ مجھے تو ڈائیونگ بھی بہترین آتی ہے"۔ حیران ہوتے بولا "آپ نے کہاں سے سیکھی؟"۔ میں نے فخر سے جواب دیا "بیٹا میریٹ ہوٹل دبئی سے سیکھی اور وہ سیلف لرننگ کورس تھا"۔ پھر وہ "واؤ بابا" کہہ کر چلا گیا۔ ہر بیٹے کی کہانی میں اس کا باپ ہی اس کا ہیرو ہوتا ہے۔ میں بھی ہیرو بنا رہنا چاہتا ہوں۔
یوں بھی کسی آنجہانی گورے کا قول ہے کہ اپنے فوبیاز کو دور کرنے کے لیے ان کو آزمائیں۔ یا آپ کا فوبیا ختم ہو جائے گا یا آپ سبق سیکھ لیں گے۔ الحمدللہ فوبیاز تو وہیں رہے البتہ میں نے سبق کافی سیکھے ہیں۔

