Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Desan Da Raja

Desan Da Raja

دیساں دا راجہ

ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے لیے مسلسل ایک ہی دُھن بج رہی ہے "دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا۔۔ امڑی دے دل دا سہارا"۔ بھائی حق بات تو یہ ہے کہ لڑکپن میں شادی بیاہ کے مواقعوں پر یہ دُھن میں نے پرائیویٹ فوجی بینڈز کو بجاتے ہی سُن رکھی ہے۔ دنیا بھر میں لیڈر لیڈران سے ملتے ہیں۔ پاکستان کا چونکہ ساری دنیا کے سامنے پیٹ ننگا ہے اس واسطے سبھی جانتے ہیں اس ملک میں اصل طاقت کس کے پاس ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی صدر کا فیلڈ مارشل صاحب کو اپنا قیمتی وقت دینا خاص اچنبھے کی بات معلوم نہیں ہوتا البتہ اعزاز میں ظہرانہ دینا (تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی صدور خال خال اور خاص خاص مواقعوں پر ہی ایسا کرتے آئے ہیں) پاکستانیوں کے اندر بے چینی اور شکوک و شبہات اُبھار رہا ہے۔

ہاں ہاں، پاکستانی بھی سازشی تھیوریز بنانے میں خودکفیل ہیں اور شاید یہی وہ واحد شعبہ ہے جس میں قوم اپنے پاؤں پر کھڑی ہے۔ لیکن شبہات کو تاریخی کسوٹی پر پرکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے یہ کچھ ایسے بے سرو پا بھی نہیں۔ پاک امریکا تعلقات کی ایک ہسٹری ہے ناں۔

1950 کی دہائی میں پاکستان امریکا روس کولڈ وار میں سیٹو اور سینٹو کا حصہ بنا اور سوویت یونین کے خلاف جاسوسی کے لیے پشاور میں امریکا کو اڈہ دیا مگر جب 65 کی جنگ ہوئی تو امریکا فوراً غیر جانبدار ہوگیا۔ 1970 میں چین سے سفارتی تعلقات کی بحالی واسطے امریکا نے پاکستان کی سفارتی خدمات اور چین سے دوستانہ تعلقات کا بھرپور استعمال کیا۔ مگر 71 کی جنگ میں امریکی بحری بیڑہ تب تک خلیج بنگال کی جانب سفر ہی کرتا رہا جب تک ڈھاکا میں ہتھیار نہیں ڈل گئے۔

جنرل ضیا کے اقتدار میں آتے سنہ 77 میں امریکا نے پاکستان کے جوہری پروگرام کے خدشات کے تناظر میں کانگریس میں بل منظور کیا جس کے نتیجے میں پاکستان کی فوجی اور اقتصادی امداد روک دی گئی مگر کابل میں کمیونسٹ نواز حکومت بن گئی تو پاکستان کو لبھانے کے لیے پابندیاں ہٹا لیں گی اور پاکستان بھی لُبھنے کو تیار بیٹھا تھا۔ سو پھر آسمان کی نیلی چھتری تلے صدر ریگن تھے اور ضیا الحق تھے۔ دو جسم ایک قالب۔ امریکی صدر نے جنرل ضیا کو آزاد جمہوری دنیا کا محافظ قرار دیتے ہوئے افغان مجاہدین کو " بلیو آئی" یا محبوب ترین قرار دے ڈالا۔

سنہ 98 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان پر ایٹمی دھماکے نہ کرنے کا دباؤ ڈالا گیا۔ پاکستان کے دباؤ قبول نہ کرنے اور ایٹمی دھماکے کر گزرنے کے بعد پاک امریکا تعلقات پست ترین سطح پر آ گئے۔ پر خدا بڑا مسبب الاسباب ہے۔ کرنا خدا کا یوں ہوا کہ جیسے ضیا الحق کی خوش نصیبی سے کابل میں کمیونسٹ نواز حکومت آ گئی تھی ویسے ہی جنرل مشرف کی خوش نصیبی سے امریکا میں نائن الیون ہوگیا۔ پاکستان ایک بار پھر نقد تعاون پر راضی ہوگیا۔ اگلے تیرہ برس دونوں ملک ڈالروں کی چھاؤں میں ہنسی خوشی رہتے رہے اور پھر بھی جب افغانستان میں دال مکمل نہ گل سکی تو امریکا کو پاکستان ولن لگنے لگا۔ اس پر " ڈبل گیم " کا الزام لگا کر "ڈو مور" کی آوازیں کسیں جانے لگیں اور پھر فوجی امداد کا "کیری لوگر بل" بھی ختم کر دیا گیا۔ ٹرمپ سرکار کو افغانستان سے انخلاء کی ضرورت محسوس ہوئی تو اسے پھر پاکستان کی یاد آ گئی۔ کابل میں ہمارا ایک مشہور جرنیل چائے پیتے پایا گیا۔

یہ سب کچھ پچھلی کچھ دہائیوں میں اتنے تسلسل سے ہوتا آ رہا ہے کہ اب تو پاکستان میں کوئی نابینا بھی بتا دیتا ہے کہ امریکا کب خوش اور کب گیس ہونے والا ہے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا عمومی رویہ بھی یہی ہوتا ہے کہ "جائیے آپ کہاں جائیں گے، یہ نظر لوٹ کے پھر آئے گی۔ "۔

چنانچہ لیڈیز اینڈ جنٹلمین! حالیہ خوشگوار ملاقات اور ظہرانے کے نتائج پر دی الوقت کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ آسانی سے کھانا ہضم ہو سکے گا یا معدہ خراب کرے گا۔ اگر کچھ ہاضمہ خرابی کی شکایات نظر آئیں تو تب ہی اس پر کچھ کہا جا سکتا ہے۔ ابھی جو بھی کہا جائے گا وہ مفروضوں پر بیسڈ ہوگا۔ آنے والے دنوں میں صورتحال واضح ہو جائے گی اور اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جائے گا۔ تاحال تو اونٹ کھڑا ہے۔ لیکن کچھ تجزیاتی بی مارنے کے لیے دماغی مشقت کا سہارا لیتے آزو بازو نظر دوڑا کر کچھ کہنا چاہتا ہوں جو تاحال میرا بھیجہ مجھے سگنلز دے رہا ہے۔

امریکا کو ایران کے لیے اڈوں کی ضرورت نہیں۔ عراق میں پانچ بیسز ہیں۔ بحرین میں ہے۔ اومان میں ہے۔ اس کے پاس مشرق وسطیٰ میں اڈے ہی اڈے ہیں۔ علاوہ ازیں خلیج فارس میں ماناما پورٹ پر اس کی نیوی ویسلز کھڑے ہیں اور بحری بیڑہ بھی پہنچ رہا ہے۔ مگر ایک اٹکل بھی ہے۔ وہ یہ کہ ایرانی ریاست کا کھُلا اعلان ہے جس ملک سے حملہ ہوگا اس ملک کو جواب دیا جائے گا۔ سننے میں آ رہا ہے عرب ممالک امریکا کو پیغام دے رہے ہیں ان کی سرزمین یا ان کے اندر موجود اڈوں سے ایران کے خلاف کارروائی نہ کی جائے۔ اگر یہ درست ہے اس تناظر میں کیا امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہے؟ اور کیا پاکستان یہ خدمت سرانجام دے سکتا ہے؟

ایران میں ریجیم کی تبدیلی پاکستان کی قومی سلامتی کے منافی ہے۔ اس کی وجوہات لکھ چکا ہوں۔ پاکستان اپنے مغربی بارڈر پر اسرائیلی کٹھ پتلی نہیں دیکھنا چاہے گا۔ ہاں اگر امریکا نے ریجیم چینج کا پکا فیصلہ کر لیا تو پاکستان اسے روکنے یا بدلنے پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔ مگر مجھے تاحال یقین ہے پاکستان ایران کے خلاف استعمال نہیں ہوگا اور اس مقصد کے لیے امریکا کو تعاون فراہم نہیں کیا جائے گا۔ اس کی ٹھوس وجوہات ہیں۔

افغانستان کے وقت معاملہ اور تھا حالات اور تھے۔ نائن الیون کے بعد امریکا باؤلے کتے کی طرح ہوا پڑا تھا۔ افغانستان کے ایک طرف روس، ایران اور تاجکستان تھے اور واحد پاکستان تھا رہ جاتا تھا جس کی سرحد ملتی ہو۔ اس واسطے پاکستان کو ڈو آر ڈائی کی دھمکی تھی۔ اس وقت نہ مانتے تو اس کی دشمنی مول لیتے اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کا بھی نمبر لگ جاتا۔ نائن الیون کا ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد سنہ 2003 میں راولپنڈی پاکستان سے ہی گرفتار ہوا تھا اور اسے سی آئی اے نے ہی ٹریس کیا تھا۔ الزام پاکستان پر بھی شفٹ کیا جا سکتا تھا۔

ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ ملاقات تین ماہ سے شیڈول تھی۔ اچانک یا ہنگامی ملاقات نہیں ہے۔ ۂاں، البتہ حالات بدلے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کی دلچسپی بزنس میں ہے۔ اس کا بیٹا پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے بزنس سمیت دیگر شعبوں میں انویسٹ کرنے کا خواہشمند ہے۔ ٹرمپ بھی خالص کاروباری ہے بلکہ بھتہ خور حد تک کاروباری ہے۔ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ بھارت پاکستان کو میز پر بٹھا کر معاملات سیٹل کروا دے اس میں اس کا اپنا مفاد ہے۔

اسی سلسلے میں کل ٹرمپ نے مودی کو کال بھی کی ہے اور لمبی بات کی ہے۔ مودی کا مسئلہ یہ ہے کہ امریکا کی ثالثی پر آمادگی ظاہر کرنا ان کی نظریاتی موت ہے۔ بھارت کشمیر کے معاملہ پر کسی تیسرے فریق کو شامل کرنے کا حامی نہیں۔ یوں بھی مودی کو بھارت میں سبکی کا سامنا ہے کہ اس نے ٹرمپ کی ایک کال پر جنگ بندی کر دی۔ حافظ صاحب کے بعد بھارتی وفد یا خود مودی امریکا کا دورہ کر رہا ہے۔ مودی کا پتہ نہیں وہ اپنی سبکی مٹانے کو خود بھی امریکا جا سکتا ہے۔

ہاں ہاں معلوم ہے کہ دنیا میں کوئی لنچ فری نہیں ہوتا۔ فری یہ بھی نہیں ہے۔ امریکا سے زیادہ ٹرمپ کے ذاتی اور کاروباری مفادات ہیں۔ امریکا کو ٹرمپوا ہوگیا ہوا ہے۔ امریکا پیچھے رہ گیا ہے ٹرمپ آگے آ گیا ہے۔ پھر بھی ہم سب کو دعا کا دامن تھامنا چاہئیے اور یہ دعا کرنی چاہئیے کہ امریکی دُھن "دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا" پر ہمارا ویر گھوڑی نہ چڑھ جاوے۔

Check Also

Haye Qayamat, Chaye Laao Zara, Bohat Be Hayai Hai

By Cyma Malik