Tuesday, 15 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Dekhne Ke Mukhtalif Zaviye

Dekhne Ke Mukhtalif Zaviye

دیکھنے کے مختلف زاویے

دنیا کو درپیش معاملات کو دیکھنے پرکھنے کے کئی زاویے ہوتے ہیں۔ انسانوں کی اکثریت اسی زاویے سے دیکھتی ہے جس سے وہ دیکھنا چاہتی ہے۔ مثلاً ایک نام نہاد سیکولر یا ملحد ایران کو کرہ ارض پر تمام برائیوں کی جڑ سمجھتا ہے اور اسرائیل کے نغمے گاتا ہے۔ ایک مختلف مکتب فکر کا ترجمان ایران اور اس کی پراکسیز کو مسلم دنیا میں کلمہ گوؤں کے قتال کا ذمہ دار سمجھتا ہے لیکن ایران مخالف مسلم ریاستوں کے ہاتھوں یا ان کی پراکسیز کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتال کو درگزر کر دیتا ہے یا انہیں مظلوم سمجھ لیتا ہے اور پھر وہ جو ایران کو دنیا میں واحد الہیٰ ریاست اور شیعت کا ٹھیکیدار سمجھتا ہے حالانکہ وہ ایک ریاست ہے مکتب تشیع کی ترجمان نہیں۔ سنیت اور شیعت انقلاب ایران سے قبل بھی اس دنیا میں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔

مثلاً کہنے کو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایران وہ واحد ریاست ہے جہاں کے جرنیل اور ٹاپ لیڈرشپ عوام سے پہلے اپنی جانوں کا نذرانہ دے دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ بدترین سیکئورٹی لیپس ہے۔ ریاستی ناکامی ہے۔ ناکامی کا سبب حریف کی ٹیکنالوجی اور سرمایہ پر گرفت ہے۔ حریف اس قدر طاقتور ہے کہ اس نے پیجرز دھماکوں سے حزب اللہ کی قیادت شہید کر دی۔ اپنے ہمسائیوں میں حکومتیں بدل دیں۔ زاویہ نظر ہی ہوتا ہے جو اپنی خامی کو اپنی برائی بنا کر دکھاتا ہے۔

کہنے والے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایرانی ریاست پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہی اور بھارت سے دوستی بنا لی۔ حالانکہ اس کی ایک ہسٹری ہے حادثہ ایکدم نہیں ہوتا۔ گیس پائپ لائن منصوبہ تو پاکستان کی خواہش پر شروع ہوا اور پھر امریکی دباؤ پر یکطرفہ معطل کرنا پڑا۔ ایران نے اپنے حصے کی پائپ لائن بچھا لی۔ چنانچہ معاہدے کی خلاف ورزی پر وہ عالمی عدالت میں چلا گیا اور پھر گلے شکوے بھی دو طرفہ ہیں۔ ایران نے پاکستانی بلوچستان سے ایرانی بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کا گلہ کیا۔ کچھ کو انہوں نے سر عام پھانسی دی۔ جنداللہ گروپ کے سرغنہ عبدالمالک ریگی کی حوالگی کا مطالبہ کیا جو ان کے خیال میں پاکستانی بلوچستان سے آپریٹ کرتا تھا۔ بلآخر ایران نے اسے دبئی سے بشکیک جانے والی انٹرنیشنل فلائٹ کو گھیر کر بندر عباس ائیرپورٹ پر اتار کر گرفتار کیا۔

غلط فہمیوں کے سلسلے دراز ہوئے تو بھارت نے موقعہ دیکھتے ہوئے ایران میں سرمایہ کاری کی آڑ میں اپنی جڑیں پھیلانا شروع کیں۔ چاہ بہار بندرگاہ سمیت کئی پراجیکٹس میں انویسٹ کیا اور پھر یہ تعلقات سٹریٹجک نوعیت میں بدلنے لگے۔ کلبھوشن یادو یونٹ ایرانی سرزمین سے ہی آپریٹ ہوتا رہا۔ پاکستان کا ایران سے وہی گلہ رہا جو اس کو ہم سے رہا۔ تعلقات اس نہج پر پہنچے کہ ایران نے پاکستان میں سرجیکل سٹرائک کی تو پاکستان نے ایران پر کر دی۔ اس کے بعد تعلقات بحالی کا سلسلہ شروع ہوا اور بہتر ہوتا گیا ہے۔ بھارتی عمل دخل ایران سے سمٹ چکا ہے۔ کچھ دن قبل ہی پاک بھارت جھڑپوں کے بعد ایران نے تین بھارتی جاسوسوں کو پکڑ کر پاکستان کے حوالے کیا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایران سے بھارتی اثر رسوخ سمٹ رہا ہے۔ پاکستان ایران قریب ہو رہے ہیں۔ دونوں کے مابین خلا ختم ہو رہا ہے۔

کہنے والے کہہ سکتے ہیں شام میں زینبیون اور حزب اللہ نے قتال کیا۔ شام میں بشار ظالم تھا مگر اس کو ہٹا کر اب جو بٹھایا ہے یہ اسرائیلی کٹھ پتلی اور ویسا ہی ظالمانہ ماضی رکھتا ہے۔ النصرہ فرنٹ کیوں بنا کیسے بنا اور الجولانی داعش سے الگ ہو کر اس تنظیم کا سربراہ کیسے بنا۔ تو بھائی ظالم اپنا اپنا ہی ہوتا ہے۔ ایران نے زینبیون سے شام میں جو کچھ کیا وہی کچھ ایران مخالف قوتوں نے مل کر کیا۔ ایک دوجے کا قتل عام ہی ہوا ہے اور دونوں ٹکرکے قاتل تھے۔ بشار ظالم ہٹا تو اسرائیلی پپٹ آ گیا۔ جیت ہار، حق باطل کا فیصلہ آپ خود کر لیں۔ تحریر لمبی ہو جائے گی۔ ایرانی پراکسیز اور سعودی ایران پراکسی وار پر میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔

دیکھنے والے اس نقطہ نظر سے بھی دیکھ لیتے ہیں کہ امام حسین(ع) کی تحریک حق و باطل کا معرکہ تھا۔ ایران کو اسی تناظر میں تول دیتے ہیں۔ جان کی امان پاؤں تو عرض ہے کہ کربلا دین کی بقا کا معرکہ تھا کسی ریاست کی بقا کا نہیں تھا۔ اس جنگ کا انجام دردناک تھا۔ میں نہیں چاہوں گا کہ ایران کا انجام ویسا دردناک ہو۔ جذباتی باتیں چھوڑ کر دنیا کی پتھریلی حقیقتوں کی جانب نگاہ دوڑایں۔

پتھریلی حقیقت آج یہ ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای اسرائیل کے نشانے پر ہیں۔ کل رات حوثیوں کے چیف یا یمنی فوج کے چیف پر ڈرون اٹیک کیا گیا ہے جس میں ان کے شہید ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اسرائیل علی خامنہ ای صاحب کو راہ سے ہٹا کر ایران میں نئی قیادت لانے کے مشن پر ہے۔ (گو کہ رجیم چینج پلان پر گذشتہ روز لکھا تھا کہ ایسا مشکل کیوں کر ہوگا)۔ ایران کے حق میں بہتر یہی ہوگا کہ جنگ بندی کی جانب معاملات جائیں۔ اپنے ایسٹس بچا لیں۔ اپنی عوام بچا لیں۔ عسکری محاذ پر ایران زیادہ عرصہ نہیں ٹک سکتا۔ یہ گراؤنڈ رئیلٹیز ہیں۔ دنیا کا نظام تشکیل دینے والے دنیا اپنے مطابق ڈھال لینے پر قادر ہیں۔ مڈل ایسٹ ممالک کے حالات و واقعات پر نظر دوڑا لیں۔ معجزات نہیں ہوا کرتے۔ غیبی امداد نہیں اترا کرتی۔ عراق، شام، لبنان، لیبیا، یمن، غزہ کا خدا بھی وہی ہے جو ہم سب کا ہے۔

ہاں میں یہ مانتا ہوں کہ اگر سقراط زہر کا پیالہ واپس کر دیتا، ابراہیم آتشِ نمرود میں نہ کودتے، حسین (ع) حالات ناموافق دیکھ کر یزید کی بیعت کا مطالبہ مان لیتے، گلیلیو چرچ کو لکھ کر دے دیتا کہ زمین فلیٹ ہے، بابر پانی پت میں رانا سانگا کا ایک لاکھ کا لشکر دیکھ کر پتلی گلی سے یوٹرن لے لیتا، جدید تعلیم کا تنہا وکیل سر سید احمد خان درجنوں مولویوں کی بات مان لیتا کہ انگریزی پڑھنا کفر ہے تو آج تاریخ اور ہوتی اور یہ کردار گمنام ہوتے۔

دجالی ریاست کے مقابل ایران نے اگر تاریخ میں امر ہونا ہے تو اس کا فیصلہ وہ کریں۔ میں بہرحال چاہوں گا کہ ایرانی عوام اور پانچ ہزار سالہ تہذیب اس میس سے بچ نکلے۔ بچ نکل کر آگے بڑھے۔ عالمی برادری کے ساتھ تعلقات استوار کرے۔ کمزور کی کوئی خاص Say نہیں ہوتی۔ یہی رول آف نیچر ہے۔ ڈپلومیسی یا مذاکرات کے راستے ہی زیادہ سے زیادہ اپنے لیے حاصل کرنے کی کوشش ہوتی ہے اور وہیں کمزوری کو طاقت میں بدلنے کے امکانات ہوتے ہیں۔

Check Also

Imran Khan Ki Rehai Ki Nayi Tehreek

By Haseeb Ahmad