Dastan e Karbala o Bad Az Karbala
داستان کربلا و بعد از کربلا
چودہ سو سال پہلے کا ذکر ہے۔ بنو امیہ نے کربلا کی جنگ میں خانوادہ رسول کو تہہ تیغ کر کے اپنی حکومت کی بنیادیں مضبوط کیں۔ حاکم شام یزید بخوبی سمجھتا تھا کہ اگر سارا جگ بھی بیعت کر لے تو جب تک مدینے میں بستی تین ہستیاں اس کی بیعت نہیں کریں گی، اس کی حکومت کو دوام حاصل نہیں ہو سکتا اور کل کو شورش و بغاوتیں جنم لے سکتی ہیں۔
اس نے گورنر مدینہ ولید بن عتبہ بن ابوسفیان کے نام خط لکھا اور ان تینوں سے بیعت کا مطالبہ کیا بصورت دیگر ان کو قتل کرنے کا فرمان جاری کیا۔ یہ تین اشخاص حسینؑ ابن علیؑ، عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن زبیر تھے۔ ان تینوں کو باری باری دربار میں طلب کیا گیا۔ عبداللہ ابن عمر نے بیعت نہیں کی، ان کا فرمانا تھا کہ میں بہت بوڑھا ہو چکا ہوں لہذا باقی کی زندگی گوشہ نشینی میں گزار رہا ہوں سو مجھ سے یزید کو کس بات کا ڈر؟
کیا وہ سمجھتا ہے کہ یہ بوڑھا، جس کی زندگی کا بھروسہ نہیں وہ لشکر کشی کرنے پر قدرت رکھتا ہے؟ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا جائے تا کہ میں زندگی کے دن اپنے حجرے میں گوشہ نشین ہو کر بسر کر سکوں۔ گورنر مدینہ نے خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروقؓ کے فرزند عبداللہ ابن عمر کی ان کے والد کی تکریم میں جان بخشی کی اور وہ باقی زندگی مدینے میں گوشہ نشین رہے۔
عبداللہ ابن زبیر کو اس حکم نامے کی خبر دربار میں موجود ان کے خاندان کے کسی فرد کے ہاتھ پہنچ چکی تھی۔ ابن زبیر نے حسینؑ ابن علیؑ کے پاس جا کر یہ ماجرا سنایا اور مشورہ مطلب کیا۔ حسینؑ ابن علیؑ نے ابن زبیر سے فرمایا کہ تم جان بچا کر روپوش ہو جاو ورنہ قتل کر دیئے جاو گے، چنانچہ ابن زبیر رات کی تاریکی میں مدینے سے نکلے اور مکہ جا کر کعبے میں اس لئے پناہ لے لی کہ مکے میں ابن زبیر کے خاندان والے وافر موجود تھے۔
مکہ پہنچ کر ابن زبیر نے اپنے دفاع کے لئے لشکر بنایا اور کعبہ میں پناہ لے لی کہ کعبہ پر کوئی مسلمان لشکرکشی کی ہمت نہیں کرے گا۔ حسینؑ ابن علیؑ کے ساتھ جو ہوا وہ سب کو معلوم ہے۔ آپ نے اہل خانہ و اصحاب کے ساتھ مدینہ چھوڑا اور کوفہ کی راہ لی۔ امام کا فرمانا تھا کہ میں نہیں چاہتا میرے قتل سے میرے نانا کے شہر مدینہ کی حرمت پامال ہو۔
وہ قافلہ جو مدینے سے چلا، مکہ میں پڑاو ڈال کر رخصت ہوا، 2 محرم کو کربلا کے صحرا میں ناکہ بندی کر کے روکا گیا۔ وہ دس محرم کو تہہ تیغ ہوا۔ اب یہ قافلہ کس کا تھا، اس کا سردار کون تھا، اسے مارا کس نے یہ سب آپ کو معلوم ہے۔ امام حسینؑ کا خطبہ آخر جو انہوں نے سپاہ یزید کو مخاطب کر کے دیا وہ پیش ہے۔
"اگر میرے قتل سے تمہاری پیاس بجھ سکتی ہے، تو اے تلوارو آو مجھ پر ٹوٹ پڑو مگر یاد رکھنا میرے قتل کے بعد تم قیامت تک متحد نہ ہو سکو گے اور میں اپنے جد امجد اپنے نانا کے حضور تمہاری شکایت کروں گا۔ تم نے بہت جلد بھلا دیا کہ میرے جد امجد نے فرمایا تھا۔ حسن و حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں۔ تم نے میرے خاندان کا خون نہیں بہایا بلکہ رسول و آل رسول کی حرمت کو ضائع کیا ہے۔ میں آج حجت تمام کر رہا ہوں۔ آو مجھ سے لڑو اور دیکھو کہ ساٹھ سال کا بوڑھا کیسی جنگ لڑتا ہے "
آل رسول کو حاکم شام نے کربلا کے صحرا میں جس بیدردی سے قتل کیا، اس کے بعد اس قتل کو چھپانے کے لیئے کئی جتن کرنے پڑے۔ شام سے فوجیں اس اعلان پر جمع کی گئیں تھیں کہ ایک باغی نے خلیفہ وقت یزید کے خلاف خروج کیا ہے۔ شام میں لوگوں کی اکثریت اس بات سے لاعلم تھی کہ وہ حسینؑ ابن علیؑ سے جنگ کرنے جا رہے ہیں۔ یہ قتل چھپ جاتا مگر دو چیزوں نے اس کو چھپنے نہیں دیا۔
پہلی سر علی اصغرؑ جو اتنا چھوٹا تھا کہ نیزے کی نوک پر سنبھالا نہیں جاتا تھا۔ امام عالی مقام کے چھ ماہ کے اس بچے کا سر شامی فوج نے رسی سے باندھ کر اونٹ کے گلے میں لٹکا رکھا تھا۔ قتل کے بعد جب عورتوں بچوں کو قید کر کے اس قافلے کو شام لے جایا گیا تو بازاروں میں لوگ دیکھ کر سوال پوچھنے لگے کہ باغیوں کا قتل تو ٹھیک ہے، کنیزیں بھی بنا لیں مگر شریعت محمدی میں شیر خوار بچے کا قتل منع ہے۔
اس بچے کو کیوں مارا گیا اور مارا گیا تو اس کا سر کیوں کاٹا گیا؟ دوسری چیز دربار یزید میں بیبی زینب کا خطبہ ہے جو بہت لمبا ہے۔ جس میں انہوں نے اپنے خاندان کا تعارف کرانے کے ساتھ قتل حسینؑ میں ملوث ہونے والوں کے بدترین انجام کی دعا کی تھی۔ واقعہ کربلا کے بعد یزید تین سال زندہ رہا، مگر اس کے ہوتے ہی ملک کے طول و عرض میں شورش پھیلنے لگی۔
جوں جوں قتل حسینؑ کی خبر عرب کے صحراوں میں پھیلتی گئی توں توں لوگ غم و غصہ دکھاتے جتھے بنا کر خروج کرنے لگے۔ اہلیان مدینہ نے یزید کی بیعت توڑتے ہوئے بغاوت کر دی۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیئے یزید نے اپنی فوج کو مکہ اور مدینہ پر چڑھائی کرنے کے احکامات دیئے، جس کو واقعہ حرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 27 ہزار نفوس پرمشتمل یزیدی فوج نے مدینہ کی حرمت کو پامال کر ڈالا۔
مدینہ میں اصحاب اور ان کے خاندان کا قتل کیا گیا۔ اصحاب زادیوں سے گستاخیاں کی گئیں۔ روضہ رسول پر شامی فوج نے اپنے گھوڑے باندھے اور اسے اصطبل بنا ڈالا۔ مسجد نبوی میں تین روز تک آذان و نماز معطل رہی۔ آپ واقعہ حرہ کو پڑھیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں لگ بھگ 700 اصحاب رسول کا قتل کیا گیا اور مجموعی طور پر ہزاروں افراد کا خون بہایا گیا۔
مدینے سے فارغ ہو کر یزیدی فوج نے ابن زبیر کو قتل کرنے کے واسطے مکہ کی راہ لی۔ ابن زبیر حرم میں پناہ لئے بیٹھے تھے اور اپنے خاندان و اصحاب کے ساتھ اپنے دفاع میں لشکر بنائے موجود تھے۔ 64 روز تک کعبہ کا محاصرہ کیا گیا۔ بلآخر کعبہ پر منجیقوں سے سنگ باری کی گئی۔ کعبہ کے غلاف کو آتشزدگی سے آگ لگی۔ آگ اتنی شدید تھی کہ کعبہ کی دیواریں سیاہ ہو گئیں۔
اسی حملے کے دوران اطلاع آئی کہ دمشق میں یزید کا انتقال ہو گیا ہے۔ ابن زبیر نے اعلان کیا کہ اب تمہارا آقا تو مر گیا۔ اب کیوں کعبہ کی حرمت پامال کر کے مزید ظلم کرتے ہو؟ فوج واپس دمشق کو روانہ ہو گئی۔ ابن زبیر نے مکہ میں اپنی گورنری کا اعلان کرتے ہوئے اپنی حکومت بنا لی۔ یزید کا بیٹا معاویہ ابن یزید تخت پر بیٹھا۔ اس نے لگ بھگ 40 روز تک حکومت کی اور پھر تمام خاندان و وزیر و مشیر کو جمع کر کے۔
اس نے تخت چھوڑنے کا اعلان کیا اور اپنی ماں کے ساتھ گوشہ نشین ہو گیا۔ بعض روایات کے مطابق تخت چھوڑنے کے چند روز بعد اسے قتل کر دیا گیا۔ اس کا فرمانا تھا "مجھے اپنے باپ کا وہ تخت نہیں چاہیئے، جس سے خون حسینؑ کی بو آتی ہو" اس کے بعد بنو امیہ کا حاکم مروان بنا۔ مروان کے دور میں کئی فتنے اٹھے۔ چلتے چلتے وقت کے ساتھ عباسیوں نے لوگوں کو قتل حسینؑ کا بدلہ لینے کے لیئے جمع کرنا شروع کیا۔
عباسی رسول پاک کے چچا حضرت عباس کے بیٹے ابن عباس کی نسل سے تھے۔ انہوں نے کالے پرچموں کے ساتھ "یا الثارث الحسینؑ" کا نعرہ بلند کیا، لاکھوں کی فوج اس بنا پر جمع کی کہ خاندان رسول کے ناحق قتل کا بدلہ بنو امیہ سے لینا ہے۔ ابو العباس السفاح نے مروان ثانی کو شکست دے کر بنو امیہ کا تختہ الٹ دیا۔ عباسی حکومت قائم ہوئی۔
انہوں نے امویوں کو چن چن کر قتل کرنا شروع کیا، یہاں تک کہ بنو امیہ کی قبریں کھودیں گئیں اور لاشوں کو نکال کر پامال کیا گیا۔ عباسی جو قتل حسینؑ کے بدلے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے اقتدار ملتے ہی سب بھول گئے۔ عباسیوں نے ظلم کی نئی تاریخ رقم کی۔
چودہ سو سال سے آپس میں دست و گریبان مسلمان امت آج تک ویسی کی ویسی ہے۔ خطبہ امام حسینؑ بار بار یاد آتا ہے کہ اس قتل کے بعد قیامت تک متحد نہ ہو سکو گے۔ مسلمانوں میں دو بڑے گروہ واقعہ کربلا کے بعد کھل کر سامنے آئے۔ امام حسینؑ کا استغاثہ جو آپ نے کربلا میں بلند کیا "ہل من ناصر ینصرنا" (ہے کوئی جو میری مدد کو آئے) وہ آج بھی گونج رہا ہے۔ ہمارے اطراف کئی چھوٹی کربلائیں بپا ہیں اور ہم کوفی بنے سب کچھ دیکھ کر چپ ہیں۔
خطیبِ شہر کا مذہب ہے بیعتِ سلطاں
تیرے لہو کو کریں گے سلام ہم جیسے
سلام یا حسینؑ