Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Controlled Chaos

Controlled Chaos

کنٹرولڈ کیاس

تاجی کھوکھر کے بیٹے فرخ کھوکھر کا جمیعت میں شامل ہونا، طاہر اشرفی کا بلاسفیمی بزنس گینگ میں ملوث اپنے بھائی حسن معاویہ کی وکالت میں سامنے آنا، پی ٹی آئی کے علی محمد خان کا راؤ عبدالرحیم کے ساتھ جا بیٹھنا اور لطیف کھوسہ کا بلاسفیمی گینگ وکلاء کے اجلاس میں شرکت کرکے جسٹس اعجاز اسحاق کے کمیشن بنانے کے فیصلے کی مذمت کرنا یہ کوئی اچنبھے کی باتیں بھی نہیں ہیں۔

سیاسی جماعتوں کا لینڈ مافیا، ٹمبر مافیا، شوگر مافیا، آئیل مافیا سمیت مسلح مافیاز، سمگلرز اور کن ٹٹے لوگوں کو آشیرباد دینا پولیٹیکل بزنس کا حصہ ہے۔ عزیر بلوچ ہو، تاجی کھوکھر یا اس کا بیٹا ہو، شوگر مافیا ہو، ٹمبر مافیا کے سرغنہ ہوں یہ سب سیاسی جماعتوں کے اندر ہی تو پھلتے پھولتے ہیں۔

رہ گئی بات بلاسفیمی بزنس کی تو وہ مذہب کارڈ کے طور پر مذہبی ٹھیکیداروں کا ہتھیار ہے۔ وہ اس ہتھیار پر ضرب نہیں پڑنے دیں گے۔ کون اپنی روزی پر لات مارنے کی اجازت دیتا ہے۔

ان سب کرداروں اور ان کی کرتوتوں پر مجھے کوئی نہ کوئی فلمی سین یاد آ جاتا ہے۔ مثلاً جب فرخ کھوکھر اور مولانا کی تصویر سامنے آئی تو "مرزا پور" سیزن سے گڈو بھیا کا ڈائیلاگ ذہن میں آ گیا "ایک باری کی بات ہے۔ جنگل میں بھالو بیڑی پی رہا تھا۔ اچانک چوہا آیا، بولا: ویاسن کا سوق، کتے کی موت۔ نسہ چھوڑو ہمارے ساتھ چلو دیکھو جنگل کتنا بیوٹی فول ہے"۔

اور بلاسفیمی بزنس گینگ کے کرداروں اور ان کے ہمدردوں کی تصویروں کو دیکھ کر شاہ رخ کا ڈائیلاگ یاد آ جاتا ہے۔

"امی جان کہتی تھیں کوئی دھندا چھوٹا نہیں ہوتا اور دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں ہوتا"۔

کچھ دوست ان معاملات کو لے کر بہت سنجیدہ ہو جاتے ہیں جبکہ سچ پوچھیں تو مجھے ہنسی آتی ہے۔ ہاتھی کے گھر ہاتھی ہی پیدا ہوگا لومڑی تو پیدا ہونے سے رہی۔ جو بویا ہے وہی تو سامنے آئے گا۔ ببول کی فصل پر گلاب نہیں اُگ سکتے۔ نہ کچھ عجیب ہے نہ انہونا، وہی ہم عوام ہیں، وہی سیاستدان، وہی نظام۔ جس طرح کا ڈھانچہ اور مزاج ورثے میں ملا ہے، نسل در نسل وہی تو کروائے گا جو ہوتا آیا ہے۔ یہی ہمارا ثقافتی ڈھانچہ ہے اور یہی ہماری بود و باش۔۔

یہاں شور و غوغا تو ہر بڑی چھوٹی بات پر اُٹھتا ہے اور دو روز کی دھینگا مشتی، اک دوجے کو بیغیرت کے طعنوں سے چھلنی کرنے بعد کمبل اوڑھ کے سو جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی بڑے سے بڑے مدعے کی عمر چوبیس گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ پھر نیا مدعا یا سانحہ اور نیا شور۔ یہ باتیں اور مناظر کم ازکم میری نسل کے لیے بالکل بھی نئے نہیں لہذا پھر ایسی باتوں پر حیرت کیسی۔ کچھ عرصہ قبل تک (اور آج بھی گلی محلوں اور گنجان شہروں کی آبادیوں میں) جب گھر کا مرد کام پر اور بچے اسکول روانہ ہو جاتے تو عورتیں برتن اور کام کاج سمیٹ کر سبزی خریدنے کاٹنے کے بعد وقت گزاری کے لیے پچھلی گلی میں کھلنے والے اپنے اپنے دروازے پر کھڑی ہو جاتیں اور پھر باتیں شروع ہو جاتیں۔

اپنے اپنے مردوں کی اچھائی برائی، بچوں کی بیماری، مہنگائی، فلانی کا فلانے سے آنکھ مٹکا، کسی محلے دار کی بیٹی کے لچھن سے ہوتی ہواتی غیبت کے چراغ جلاتی ایک دوسرے پر طعنہ زنی اور بعض اوقات اے فلانی ڈھینگنی، اپنی شکل دیکھی ہے تو نے کمینی، جوتا مار دوں گی منہ پر جو ایک لفظ بھی اور اس منحوس منہ سے نکالا، اے ہے ذرا ایک قدم آگے تو آ تیرا جُوڑا پکڑ کے اسی گلی میں نہ گھسیٹ دیا تو نام صفیہ نہیں وغیرہ وغیرہ تک آن پہنچتی اور پھر دو چار دروازے دھرم سے بند ہونے کی آوازیں آتیں اور دوپہر کا سکوت چھا جاتا۔

ذرا دیر بعد بچے اسکول سے واپس آنے شروع ہو جاتے۔ ان کی کھلائی پلائی ہوتی، چھوٹے بچے سو جاتے اور بڑے بچے سائے لمبے ہونے کے ساتھ ہی یا تو ٹیوشن پر یا پھر ساتھ والے میدان میں کھیلنے چلے جاتے۔ چنانچہ پچھلی گلی میں کھلنے والے دروازوں اور چوباروں پر صبح کو جو سیشن بدمزگی کے ساتھ ختم ہوا تھا وہ دوبارہ شروع ہو جاتا۔ کوئی عورت کسی سے نہیں پوچھتی تھی کہ صبح کو بدمزگی کیوں ہوئی تھی۔

پھر سے وہی گفتگو جو صبح کے سیشن کی طرح دھیمے خوشگوار سروں میں ہنسی مذاق کے ساتھ شروع ہوتی اور پھر ملازمت پیشہ اور کام کاج پر گئے گھر کے مردوں کی واپسی شروع ہو جاتی اور انکل سلام، بھائی صاحب کیسے ہیں، جیتی رہو، جیتے رہو کے ساتھ ساتھ پچھلی گلی کے پٹ بند ہوتے چلے جاتے۔

مغرب کے بعد کبھی کبھار کسی گھر کے اندر سے مردانہ گالیوں کی آوازیں، کبھی تھپڑ یا لات مکی اور اس کے ساتھ ہی کوئی روتی ہوئی مسلسل باریک سی آواز، کبھی دیوار سے سر ٹکرانے کی دھمک یا کبھی بلند ہوتے قہقہے اور کبھی ایک ساتھ سب بچوں بڑوں کی گفتگو کا شور آس پڑوس کو سنائی دیتا۔ جوں جوں اندھیرا چھانے لگتا توں توں آوازوں کا دائرہ سمٹنے لگتا اور پھر ٹی وی یا پڑوس کی مسجد میں ہونے والی کسی محفل کی آواز محلے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی اور پھر بھیگتی رات کا سکوت تمام آوازوں کو فجر تک کمبل اوڑھا دیتا۔

یہ ہے وہ ماحول کہ جس کے خمیر سے ہماری اٹھان ہوتی ہے اور پھر پختہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ شاید ہم سب ایک "کنٹرولڈ کیاس" یعنی منظم افراتفری کے وال کلاک میں لگی سوئیاں ہیں جو روزانہ بارہ بارہ گھنٹے کا دائرہ مکمل کرنے کے سوا نہ کچھ سوچ سکتی ہیں نہ کر سکتی ہیں۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam