Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Cappadocia

Cappadocia

کیپاڈوکیا

کیپاڈوکیا ایک جہانِ حیرت ہے۔ کٹے پھٹے پہاڑوں کا سلسلہ ہے۔ عجب اشکال کے مینار نما مٹی کے مینار جابجا ملتے ہیں۔ کیپاڈوکیا سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور ایک جھیل نقشے پر دکھائی دی تو میری سیاحتی رگ پھڑک اُٹھی۔ جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا اس کی مالکہ خود ریسپشن پر بیٹھتی تھی۔ یہ درمیانی عمر کی ترک خاتون تھی۔ چہرے سے خوش شکل اور مزاج سے انتہائی خوش اخلاق۔ جھیل کی معلومات لینے کو میں اس کے پاس چلا گیا۔

"مجھے اس جھیل کا بتا سکتی ہیں کیا یہاں تک رسائی ممکن ہے؟"

اس نے مجھے نظر اٹھا کے دیکھا۔ "ہاں، تمہارے پاس اپنی گاڑی ہے ناں؟ تم جا سکتے ہو۔ بس راستہ سنسان ہو گا مگر راستہ ٹھیک ہے۔ مجھے امید ہے تم دونوں وہاں خوبصورت دن گزار سکتے ہو۔ اس جھیل پر کوئی سیاح نہیں جاتا۔ اس کی وجہ ایک تو دور ہے دوسرا کوئی پبلک ٹرانسپورٹ یہاں تک نہیں چلتی۔ لوگ بس کیپاڈوکیا دیکھ کر، ہاٹ بلونز میں سواری کر کے واپس لوٹ جاتے ہیں"۔

ترک خاتون نے مجھے بہت حوصلہ افزاء معلومات دیں۔ میرے پاس رینٹ کی گاڑی تھی۔ میں نے معلومات لے کر واپس کمرے میں آ کر بیگم کو اٹھایا "چلو تیاری کرو۔ ایک جھیل پر جانے کا پروگرام بن گیا ہے۔ " بیگم سُن کر چونکی "جھیل؟ اوہ ہو ایک تو آپ کو ہر جگہ جھیلوں کی تلاش رہتی ہے۔ اس کھنڈر میں بھی جھیل تلاش کر لی آپ نے؟" سفر شروع ہوا۔ راستہ سنسان تھا مگر سڑک کا معیار بہت اچھا تھا۔ گاڑی اس ویرانے میں بھاگتی رہی۔ گوگل میپ پر جھیل کی لوکیشن لگی تھی۔ دو گھنٹے بعد ہم دونوں جھیل پر تھے۔

جھیل برف پوش پہاڑوں کی بیچ جڑا پیالہ نما نیلگوں نگینہ تھی۔ دور دور تک کسی بندہ بشر کے نشانات نہیں تھے۔ صرف ایک کتا تھا جو بھالو جیسا فربہ تھا۔ وہ ہمیں سونگھنے کو آگے بڑھا۔ بیگم ڈر کے گاڑی میں جا بیٹھی۔ کتے نے میرے شوز کو سونگھا اور واپس پلٹ گیا۔ تیز ہوا تھی، مدھم دھوپ تھی اور ہم دونوں تھے۔ وہ جھیل اس دن ہم دونوں کی ملکیت تھی۔ چار گھنٹے وہاں یونہی دھوپ میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ بلآخر بیگم کو کچھ خدشات ابھرنے لگے۔ وہ بولی "چلیں اب واپس چلیں۔

یہاں تو کوئی انسان بھی نہیں نہ کوئی ابھی تک آیا ہے۔ شام سے پہلے نکل جائیں واپس۔ اب مجھے یہاں کی تنہائی سے ڈر لگنے لگا ہے"۔ وادی میں میرا قہقہہ گونجا۔ جھیل کی خاموش لہروں نے انگڑائی لی۔ وہاں اخیر قسم کی پراسرار تنہائی تھی۔ جھیل کو الوداع کہا۔ گاڑی کی جانب بڑھے تو وہی بھالو نما کتا پھر ہمیں سونگھنے کو آگے بڑھا۔ بیگم نے اسے ڈرائی کیک ڈالا اور بولی "یہ اکیلا کتا یہاں کیسے پلتا ہو گا؟ اس کو کچھ کھانے کو دینا چاہئیے مگر ابھی صرف کیک ہے۔ " کتا کیک چٹ کر گیا اور واپس لوٹ گیا۔

جیسے ہی گاڑی جھیل کو مرکزی سڑک سے ملانے والی رابطہ سڑک پر چڑھی ایک بوڑھا ترک راہ روکے کھڑا ملا۔ میں نے گاڑی روک دی۔ اس بوڑھے نے ترک زبان میں کچھ کہنا شروع کیا جو مجھے سمجھ نہیں آیا۔ بوڑھے نے پھر اشارے سے بتایا کہ کچھ کھا کر جاؤ۔ شاید اس کا گھر قریب ہی تھا اور اس سمت وہ اشارہ کر کے پھر ہاتھ کے اشارے سے کھانے کا اشارہ کرتا تھا۔ اس کی اپنی حالت خستہ تھی۔ پرانا لباس، گندی ٹوپی اور ہاتھ میں چھڑی۔ اس کی مہمان داری کا شکریہ ادا کیا اور کچھ لیرے اس کی ہتھیلی پر رکھنا چاہے۔ بوڑھے نے لیرے واپس کر دئیے اور پھر ترک زبان میں کچھ کہنے لگا۔

مجھے انتہائی شرمندگی ہوئی۔ شرم کے مارے میں نے اسے اشارے سے گاڑی میں بیٹھنے کو کہا۔ وہ بیٹھا اور مجھے راستہ سمجھانے لگا۔ قریباً دو کلومیٹر گاڑی چلے ہو گی۔ مرکزی شاہراہ کے کنارے ایک چھوٹی سی سنیکس شاپ تھی۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ یہ اس بوڑھے کی شاپ ہے۔ وہاں سے کچھ چپس، سافٹ ڈرنکس لیے اور بوڑھے کو بِل دیا۔ اس نے خوش ہو کر بِل لیا اور شکریہ ادا کرنے لگا۔ واپس ہوٹل پہنچنے تک شام پھیل چکی تھی۔ شہر کی بتیاں جل اٹھیں تھیں۔ میری ترک میزبان نے ہمیں دیکھا۔

"کیسا رہا سفر اور کیسی لگی جھیل؟ تم دونوں کو کمرے میں چائے بھجواتی ہوں۔ "

"شکریہ۔ سفر اچھا رہا اور جھیل تو میرے ہم مزاج نکلی۔ بھیڑ بھار سے دور، خاموش اور اپنے آپ میں مست"۔

میزبان کا قہقہہ گونجا۔ "ہاں میری پسندیدہ جگہ ہے۔ کبھی کبھی وہاں جاتی ہوں اور دن گزار کر واپس آ جاتی ہوں۔ اکیلی عورت کے لیے بزنس سنبھالنا بہت مشکل ہے۔ پتا نہیں پاکستان میں کیا حالات ہیں مگر یہاں معاشی حالات اچھے نہیں اور میرے جیسی سنگل پیرنٹ خاتون کو اپنے بچے پالنے کے لیے بہت مشقت کرنا پڑتی ہے۔ میں نے اپنا گھر ہوٹل میں بدل لیا ہے۔ "

"اچھا۔ کیا آپ کا گزر بسر ٹھیک ہو رہا ہے اب؟"

"ہاں ہاں اللہ کا بہت شکر ہے کسی شے کی محتاجی اب نہیں۔ " اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ پھر بولی "تو جب تھک جاتی ہوں تب چلی جاتی ہوں۔ ایک دن بچوں کے ساتھ جھیل پر گزارتی ہوں"۔

میں کمرے میں آ گیا۔ بیگم بولی " کیا کہہ رہی تھی؟ اس کو بتانا تھا کہ پاکستان میں عورتوں کے کیا حالات ہیں۔ یہ تو ان کے آگے بہت امیر ہیں"۔ میں نے کہا کہ چھوڑو یار اب کیا لمبی باتیں چھیڑتا۔ ترقی پذیر ممالک میں عورتوں کے حالات کم و بیش ایسے ہی ہوتے ہیں ہمارے ہاں ذرا جہالت اور مرد کے اختیار نے زیادہ المئیے دکھائے ہیں۔

بیگم سن کر بولی "او ہو، ہر وقت بس آپ سے لیکچر سن لو، اتنے آپ سگمڈ فرائیڈ۔ میرا مطلب تھا کہ اس کو کہنا تھا تم تو سنگل پیرنٹ ہو پاکستان کی عورت (اپنی جانب اشارہ کرتے ہوئے) شوہر کے ہوتے ہوئے بھی تمہاری نسبت بہت ہی زیادہ غریب ہے۔ "

Check Also

Solar Energy Se Bijli Hasil Karne Walon Ki Hosla Shikni

By Nusrat Javed