Budget Kahani
بجٹ کہانی
صحت، تعلیم، انصاف، چھت، خوراک۔ ان پانچ بنیادی انسانی ضروریات کو معیار بنا لیں تو معلوم ہوگا کہ نوے فیصد سے زائد شہریوں کو اس نام نہاد منصوبہ بندی سے کوئی فائدہ نہیں۔ نتیجتاً جس پر آج بجٹ کے نام پر تجزیاتی مغز ماری کی جائے گی اس میں نہ عزت محفوظ ہے نہ جان کی امان ہے اور نہ مستقبل کی ضمانت۔ کہنے کو آج کا کل بجٹ 18 کھرب روپوں کا بجٹ ہے لیکن شہری کی فلاح پر یہ ریاست گن کر بارہ روپے مہینہ خرچ کرتی ہے۔ ہاں! حکمرانوں کی حفاظت اور عیش کے لیے وسائل اندھا دھند ہیں۔
کوئی حد نہیں، کوئی قدغن نہیں، ان پر نہ بجلی کی قیمت کا اثر پڑتا ہے اور نہ سبزیوں اور دالوں کے بھاؤ کا، ان کی غذا مرغن ہے۔ صحت ایسی بھرپور کہ جیسے اکھاڑے سے نکلا ہوا پہلوان۔ بجٹ تو ایک کھیل ہے۔ اصل میں یہ فیصلہ تو قیام پاکستان کے فوراً بعد کیا جاچکا تھا کہ یہاں کے عوام کو ہمیشہ اس اذیت میں مبتلا رکھنا ہے کہ ان کو ایک نوالے کی فراہمی بھی من و سلویٰ لگے۔ اتنے زخمی ہوں کہ طبیعت پوچھنے پر بھی ساری زندگی شکرگزاری میں غلامی کرتے ہوئے تعریف کی تسبیح پڑھتے رہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو آج ہم سب اس بدحالی کا شکار ہوتے جس نے ہماری کمزور ترین امیدوں کو بھی خاک میں ملا دیا ہے؟
ڈار صاحب وہ "تجربہ کار" انسان ہیں جن کی چھتر چھایا تلے پچھلے تیس سالوں میں اس ملک کا گیارہواں بجٹ پیش ہو رہا ہے۔ بجٹ اس مفصل واردات کا حصہ ہے جو اس ملک پر قابض طبقے ہر سال ہمارے ساتھ کرتے ہیں۔ اگر سیاسی و عسکری اشرافیہ میں کسی کو کاروبار، ریاست اور حالات قوم کو بدلنے میں کوئی حقیقی دلچسپی ہوتی تو وہ یقیناً اسی استطاعت اور کامیاب منصوبہ بندی کا سہارا لیتے جس کے ذریعے انہوں نے ذاتی معاشی معاملات کو ایسے سنبھالا ہے کہ ہر طرف سے فائدہ کے سوا کوئی اور نتیجہ سامنے نہیں آتا۔ نہ کوئی سہارا ہے نہ کوئی تنگی، جن تمام سالوں میں (بجٹ کے باوجود یا شاید بجٹ کی وجہ سے) پاکستانی عوام کی ہڈیوں سے ماس غائب ہوگیا اسی دوران بجٹ بنانے والے اور بجٹ کھانے والے فربہ اندام ہو گئے۔ ملک کی معیشت ڈوب گئی، ان کی دولت کے انبار آسمان کو چھونے لگے۔
حکومتی آفس میں وزیر بے تدبیر اور بے بس نظر آئے مگر اپنی صنعتوں اور ملوں میں ان سے کائیاں اور ماہر کاروبار دکھائی نہ دیا۔ ڈی ایچ ایز اور آرمی ویلفئیر ٹرسٹ کے تحت چلنے والے پچپن سے زائد کاروبار تو پھلتے پھولتے رہے مگر دفاع کا سارا بوجھ خزانے پر ہی رہا۔ یہ کیا ماجرہ ہے کہ ملک کی معیشت کو درست کرنے میں ناکام افراد ذاتی دولت اکھٹا کرنے میں اتنے کامیاب ہو جاتے ہیں؟ بنیادی بات یہی ہے جو میں نے پہلے آپ کے لئے تحریر کر دی ہے۔
بجٹ قبضہ گروپ کا وہ ہتھیار ہے جو وہ ہر سال استعمال کرکے آپ کو اپنی خودساختہ مجبوریوں کے واویلے سے متاثر کرتے ہیں اور پھر تمام دن اپنی دن دگنی اور رات چگنی ترقی کے اہتمام کرنے پر مامور ہو جاتے ہیں۔ اگر ان کو تبدیلی لانا ہوتی تو آج غریب کی اولاد جھگیوں میں مٹی پھانکے کے بجائے دبئی اور لندن میں ارب پتیوں کے ساتھ ان کی اولادوں کی طرح مکمل آسائش میں نہ پل بڑھ رہے ہوتے؟