British National Museum London
برٹش نیشنل میوزیم لندن

برٹش نیشنل میوزیم لندن میں سات انچ بائے پانچ انچ کی ایک چھوٹی تصویر لگی ہے۔ وہ ہے بھگت سنگھ کی تصویر۔ اس کو دیکھ کر مجھے لندن میں لاہور سے گڑھی خدا بخش کی یاد آ گئی۔ شہر لاہور کے بارے ایک کہانی مجھے بہت عزیز ہے اور وہ ہے بھگت سنگھ کی کہانی، جو برصغیر کا عظیم حریت پسند تھا۔ جو لاہور کی شکستہ گلیوں میں فخر سے سر بلند کرکے چلتا تھا اور جسے سینٹرل جیل میں، جو اب ڈھ چکی ہے، پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔
شادمان اور شاہ جمال کا علاقہ کبھی "لہنا سنگھ دی چھاؤنی" کہلاتا تھا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں لاہور کے تین سکھ حکمرانوں میں سے ایک سردار لہنا سنگھ، مہاراجہ رنجیت سنگھ کے برسر اقتدار آنے سے قبل حکومت کرتا تھا۔ لاہور پر تین سکھ سردار حکمران تھے جنہوں نے اپنا اپنا علاقہ بانٹ رکھا تھا۔ لہنا سنگھ نے انگریزوں کی پیش قدمی کو دریائے ستلج تک محدود رکھنے کی خاطر اپنی چھاؤنی بنا لی تھی۔ اس چھاؤنی کے عین بیچ ایک وسیع و عریض گھر تھا۔ عین اسی جگہ جہاں اب جیل روڈ سے آتے ہوئے دوسرا گول چکر واقع ہے۔ یہ گول چکر بابا شاہ جمال کے مزار سے نزدیک ترین ہے۔ صرف دو سو گز کی دوری پر صوفی بزرگ آرام فرما ہیں۔ اسی بنا پر اس علاقے کا یہی نام بھی ہے۔
قصور کے خان صاحبان نے جو لاہور دربار کا تخت الٹنے کی سازش میں انگریزوں کے شریک تھے، انہوں نے ایک ایلچی سردار لہنا سنگھ کے پاس بھیجا تا کہ وہ رنجیت سنگھ کے قتل کی سازش کر سکیں۔ رنجیت سنگھ کی پیش قدمی لہنا سنگھ اور قصور میں بسے خانوں کے لئے مشترکہ خطرہ تھی۔ ایلچی سے کسی بات پر بحث ہوگئی اور اس کا سر قلم کرکے قصور بھیج دیا گیا۔ قصور کے غدار حکمران جو انگریزوں کے رفیق تھے وہ انگریزوں سے مل کر لہنا سنگھ سے بھڑ گئے۔
سکھ حکمران انگریزوں سے شکست کھا گئے۔ قصور کے خان اس عرصے میں غداری کا کام کرتے رہے۔ انہوں نے قصور میں بابا بھلے شاہ کو تعصب کی بھینٹ چڑھانے کو ملا حضرات سے کام لیا اور لاہور میں انگریزوں کے مخبر بنے رہے۔ لہنا سنگھ کا گھر اور چھاؤنی مسمار کر دی گئی اور یہاں پنجاب کی سب سے بڑی سینٹرل جیل بنی۔ جہاں لہنا سنگھ کا گھر تھا اسے پھانسی گھاٹ بنا دیا گیا۔
سن 1928 میں جب انگریزوں سے نجات کی کوشش زور پکڑ رہی تھی تو لاہور میں جلوس کے دوران ایک معروف و مشہور حریت پسند لالہ لاجپت رائے کو پولیس نے لاٹھی چارج کے دوران سر پر لاٹھی مار کے جاں بحق کر دیا۔ اس واقعہ سے پورے ہندوستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ ایک اکیس سالہ انقلابی نوجوان جس کا نام بھگت سنگھ تھا وہ اٹھا اور اس نے انتقام لینے کا اعلان کیا۔ 17 نومبر 1928 کو اس نے گورنمنٹ کالج لاہور کے نیو ہاسٹل کی پہلی منزل کی کھڑکی میں کھڑے ہو کر پوزیشن لی اور وہیں سے اس نے ایک پولیس آفیسر کو مسٹر سکاٹ سمجھ کر فائر کھول دیا۔
مسٹر سکاٹ جو پولیس چیف تھا، اس کی بجائے اے ایس پی لاہور مسٹر سانڈرز کو گولی لگی اور اس کی موقع پر ہی ہلاکت ہوگئی۔ بھگت سنگھ فرار ہو کر کلکتہ چلا گیا۔ وہاں سے کچھ عرصے بعد آگرہ پہنچا جہاں اس نے آتشیں بم بنانے کا کارخانہ کھول لیا۔ بھگت سنگھ کی کارروائیوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں انگریز کے لئے پریشانیاں کھڑی کر دیں تھیں۔ ایک دن اسے قانون ساز اسمبلی پر بم پھینکتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا۔
جب بھگت سنگھ کو گرفتار کیا گیا اس نے چیخ چیخ کر کہا "انگریز اسے کبھی ہلاک نہیں کر سکتے"۔ بھگت سنگھ پر مقدمہ چلا اور 7 اکتوبر 1930 کو پھانسی کی سزا ہوئی۔ انگریز اس نوجوان سے اس قدر خائف تھے کہ پورے ہندوستان میں کوئی مجسٹریٹ اس کی موت کے پروانے پر دستخط کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ آخرکار انہوں نے قصور کا رخ کیا جہاں انگریزوں کے پرانے وفادار مجسٹریٹ جس کا نام نواب احمد خان تھا جو بعد ازاں قصوری کہلایا، اس نے پھانسی کے حکم نامے پر دستخط کر دیئے۔ نواب احمد خان قصوری مجسٹریٹ کی عمر اس وقت 27 سال تھی۔
23 مارچ 1931 کو بھگت سنگھ کو اس مقام پر پھانسی کے پھندے سے لٹکا دیا گیا جہاں کبھی لہنا سنگھ کی رہائش گاہ تھی۔ کہتے ہیں کہ اس روز پورے ہندوستان میں ایسا سوگ منایا گیا کہ پورے ملک میں ایک بھی چولہا نہ جلا تھا۔ بھارتی صحافی کلدیپ نئیر نے بھگت سنگھ پر ایک شاندار کتاب لکھی ہے۔
"Without Fear: The Life and Trial of Bhagat Singh"
اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ "بھگت سنگھ کی پھانسی کا وقت کچھ غیر معمولی تھا۔ یہ پھانسی صبح سویرے نہیں بلکہ 23 مارچ کی شام ساڑھے سات بجے دی جانے تھی، یعنی سورج غروب ہونے کے بعد۔
لاہور جیل کے چیف سپرنٹنڈنٹ میجر پی ڈی چوپڑا ایک 23 سالہ دبلے پتلے نوجوان بھگت سنگھ اور ان کے دو ساتھیوں کے ساتھ چلتے ہوئے پھانسی گھاٹ کی طرف جا رہے تھے۔ پھانسی گھاٹ کی طرف بڑھنے والا وہ شخص شاید اس وقت ہندوستان کا سب سے مشہور شخص بن چکا تھا۔ بھگت سنگھ کے ساتھ ان کے دو اور ساتھی سکھ دیو اور راج گرو بھی چل رہے تھے۔ ان دونوں کو بھی ساتھ پھانسی ہونا قرار پائی تھی۔ بھگت سنگھ چلتے ہوئے ایک شعر گنگنا رہے تھے۔
دل سے نکلے گی نہ مر کے بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وطن آئے گی
دونوں ساتھی اپنی آواز اُن کے ساتھ ملا رہے تھے۔ بھگت سنگھ نے پھانسی سے پہلے پھانسی کے پھندے کو چوما۔ پھانسی کا پھندہ انہوں نے خود اپنے گلے میں ڈالا۔ بھگت سنگھ کے بعد راج گرو اور سکھ دیو کو بھی پھانسی دی گئی۔ پھانسی کے وقت بھگت سنگھ کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے"۔
پہلے انگریز انتظامیہ کا منصوبہ یہ تھا کہ ان تینوں کی آخری رسومات جیل میں ہی ادا کی جائیں گی لیکن پھر خیال آیا کہ اٹھتے دھوئیں کو دیکھ کر باہر کھڑا ہجوم جوش میں آ جائے گا۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان کی آخری رسومات ستلج کے کنارے ضلع قصور میں ادا کی جائیں گی۔ دریائے ستلج کے کنارے دو پجاری ان لاشوں کا انتظار کر رہے تھے۔ ان تینوں کی لاشوں کو چِتا پر رکھ کر آگ لگا دی گئی۔ صبح ہوتے ہی جلتی ہوئی چتا کی آگ بجھانے کے بعد آدھی جلی ہوئی لاشوں کو دریائے ستلج میں پھینک دیا گیا۔
نہیں نہیں۔۔ بھگت سنگھ کی داستان ابھی انجام کو نہیں پہنچی۔ اب اس کہانی میں عجب موڑ آتا ہے۔ سنہ 1975 میں شاہ جمال گول چکر پر پرانے پھانسی گھاٹ کے سامنے ایک قاتلانہ حملے کی کوشش نواب احمد خان قصوری کے بیٹے احمد رضا قصوری پر کی جاتی ہے۔ کار میں احمد رضا قصوری کا باپ نواب احمد خان قصوری بھی بیٹھا ہوا تھا۔ وہی جوان مجسٹریٹ جس نے بھگت سنگھ کو پھانسی دینے کا حکم جاری کیا تھا۔ وہ خود عین اسی مقام پر بندوق کی گولی سے ہلاک ہوگیا جہاں برسوں پہلے بھگت سنگھ کو اسی مجسٹریٹ نے پھانسی لگوائی تھی۔ اس مشہور قتل کی سازش کے الزام میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

