Blasphemy Business Gang Case
بلاسفیمی بزنس گینگ کیس

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان صاحب بلاسفیمی بزنس گینگ کے کرداروں کو اچھے سے ننگا کر رہے ہیں۔ بلاسفیمی بزنس گینگ کچھ وکلاء اور ایف آئی اے کے ملازمین کا گٹھ جوڑ تھا۔ یہ گینگ 400 سے زائد افراد کے خلاف مقدمات درج کروا کے انہیں جیلوں میں بھیج چکا ہے جب کہ پانچ افراد کو جیلوں میں تشدد کے ذریعے ہلاک کیا جا چکا ہے۔ ایمان نامی لڑکی کے ذریعہ لوگوں کو ہنی ٹریپ کیا جاتا رہا ہے۔ ایمان کو بھی ٹریس کر لیا گیا ہے۔ گینگ کے وکیل بھی شکنجے میں ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر کیس چل رہا ہے۔
اس گینگ نے لڑکیوں کے استعمال سے چار سو لوگوں کو ہنی ٹریپ کرکے بلاسفیمی یا توہین کے الزام میں پھنسایا۔ ان سے بلیک میلنگ کے ذریعہ پیسے وصول کیے بصورت دیگر 295 کے تحت پرچے کٹوا دیے۔ اس گینگ کا مرکزی کردار راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ ہے۔ سو فیصد ایمان یافتہ مومنوں نے سوچا کہ کچے پکے ایمان والے لوگوں کو گھیر کر پیسہ کمایا جائے۔ وکیل اس کام کے لیے بہترین تھے۔ ساتھ ملایا کچھ سرکاری ملازموں کو اور ہوگیا کاروبار شروع۔ توہین کا پرچہ تو یہاں ٹھک کرکے کٹتا ہے۔ دو لونڈے وکیل ایس ایچ او کے پاس پہنچ جائیں تو تھانیدار کی کیا مجال وہ پرچہ نہ دے۔ مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ یہ سب پرچے ایک جیسے کاپی پیسٹ پرچے ہوئے۔ سب کا متن ایک۔
متعدد سی سی ٹی وی ریکارڈنگز اور کال ڈیٹا ریکارڈز اس گینگ کے اندرونی طریقہ کار کو بے نقاب کرتے ہیں۔ لوگوں کو بلاسفیمی گینگ کے ارکان کی جانب سے ہنی ٹریپنگ کے ذریعے اغوا کیا جاتا تھا جس میں ایسی لڑکیاں شامل ہوتی ہیں جو اس گینگ سے براہ راست منسلک تھیں ان میں مرکزی لڑکی ایمان نامی ہے۔ بلاسفیمی گینگ کا سربراہ ایڈووکیٹ راؤ عبدالرحیم اور اس کا نائب شیراز احمد فاروقی ان وارداتوں میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ شکار کو ایک جگہ بلایا جاتا۔ اس کو راؤ عبدالرحیم کی گاڑی میں زبردستی منتقل کیا جاتا اور وہاں بلیک میلنگ سے پیسے وصول کیے جاتے اور پیسہ نہ دینے کی صورت میں ان پر توہین مذہب کا پرچہ کٹوا دیا جاتا۔
اس ملک میں 295 کی تمام شقوں کا پرچہ ڈی آئی جی یا ڈائیریکٹر ایف آئی اے کی اپروول کے بنا نہیں ہونا چاہئیے۔ فورسز کے اعلیٰ افسران کے پاس ہی تمام شواہد کو دیکھتے پرچہ دینے یا نہ دینے کا اختیار ہونا چاہئیے۔ دل سے یہی دعا ہے اس مکروہ دھندے میں ملوث تمام کرداروں کو سخت سزا ہو۔ ان کی زندگیاں سلاخوں کے پیچھے گل جائیں۔ راو عبدالرحیم اور قیصر راجہ کے دیس میں زیست کرنا بھی ایک ہنر ہے۔ جب تک عوام ایسے کرداروں سے بیزاری اختیار نہیں کرے گی جو بلاسفیمی قوانین کو ہتھیار بنا کر سادہ لوگوں کو بلیک میل کرنے کا دھندا کرتے اور اس عمل کو جسٹیفائی کرتے ہیں یہ جنم لیتے رہیں گے۔
کسی نے آج تک پارلیمنٹ میں اس بابت قانون سازی کے لیے مطالبہ نہیں کیا کہ توہین مذہب و مقدسات کا جھوٹا الزام لگانے والوں کو بھی وہی سزا ملنی چاہیے جو توہین کے مرتکب افراد کے لیے مخصوص ہے۔ اب یہ آگ آہستہ آہستہ پورے بدن میں پھیلتی جا رہی ہے اور ریاست بغلیں جھانک رہی ہے۔ یہ دیگ منتخب و غیر منتخب افراد، گروہوں اور جتھوں نے بہت محنت سے تیار کی ہے۔ اب اس کے بٹنے کا وقت آگیا ہے اور ہجوم بڑھتا جا رہا ہے۔ مشعال خان سے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کی ہجوم کی ہاتھوں موت تک اس ملک میں سینکڑوں افراد میں دیگ بٹی ہے۔
اس کیس کو مرکز نگاہ بنانے پر میں فرنود عالم صاحب اور حاشر ارشاد صاحب کا شکرگزار ہوں۔ انہوں نے اس کیس کے حقائق، پس پردہ حقائق اور کورٹ پروسیڈنگز کو رپورٹ کیا ہے۔ اس ملک میں جہاں بلاسفیمی قوانین کے غلط استعمال پر بات کرنا بھی شجر ممنوعہ ہے وہاں انہوں نے جرات کے ساتھ اپنا مقدمہ پیش کیا ہے۔

