Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Barson Ka Qissa

Barson Ka Qissa

برسوں کا قصہ

گئے برسوں کا قصہ ہے۔ پچیس سال قبل میرے والد ہمیں لے کر جہلم کسی عزیز کے گھر گئے۔ وه رشتہ دار ہمیں دریائے جہلم کی سیر کروانے لے گئے۔ اس زمانے میں جہلم میں پانی بہتا تھا اور کشتیاں چلتی تھیں۔ کنارے پر کافی رونق رہتی۔ کشتی پر بیٹھنے لگے تو میری والدہ نے مجھے نہ بیٹھنے دیا، میں نے بیٹھنے کی ضد کی تو امی بولیں"جب تو بڑا ہو گا اور تیرا بھی اکلوتا بیٹا ہو گا تو میں دیکھوں گی کہ اس کو ایسی شکستہ کشتی پر کیسے بٹھاتا ہے۔

میں کنارے پر امی کی بانہوں میں روتا رہا اور باقی سب کشتی کی سیر کرتے رہے۔ برس بیتے، اک ایسا ہی منظر میرے سامنے تھا، یہ عطاآباد جھیل تھی، میں اپنی فیملی کے ساتھ اس کے کنارے کھڑا تھا۔ ملاح چلتا چلتا قریب آیا اور اس نے کشتی کی سیر بابت پوچھا۔ میرا اکلوتا بیٹا فوری بولا، انکل آپ کے پاس سپیڈ بوٹ ہے، وہ جو بائیک کی طرح ریس دے کر چلتی ہے؟

ملاح نے انکار میں سر ہلاتے اور انگلی سے قریب کھڑی اک کشتی کی جانب اشارہ کرتے کہا" نہیں بیٹا میری کشتی وہ والی ہے۔ یہ ویسی ہی کشتی تھی جیسی عمومی طور پر ہمارے دریاوں میں چلا کرتی ہیں۔ بیٹے نے اس میں بیٹھنے کی ضد کر دی، میں نے کشتی کو دیکھا۔ شکستہ حالت تھی، تمہارے پاس لائف جیکٹس ہیں؟ میں نے ملاح سے پوچھا۔

ہاں ہیں، مگر وہ کام کی نہیں۔ آپ خود دیکھ لو۔ ملاح نے صاف جواب دے دیا، جیکٹس سچ میں ناکارہ تھیں، یہ دیکھ کر میں نے اپنے بیٹے کو کہا کہ بیٹا اس جھیل کو میں کئی بار تب ایسی ہی کشتیوں میں پار کر چکا ہوں، جب شاہراہ قراقرم لینڈ سلائڈ کے سبب ختم ہو گئی تھی اور دریا کا بہاو رکنے سے یہ جھیل وجود میں آئی تھی۔ ان کشتیوں کی حالت اچھی نہیں، جھیل گہری ہے اور بیچ میں جا کر کشتی ڈولنے لگتی ہے لہذا یہ سیف نہیں۔

اس نے میری بات سنی۔ بولا " او پاپا یار۔ کچھ نہیں ہوتا ساری دنیا ان میں سیر کر رہی ہے۔ وہ دیکھیں تین چار کشتیاں جھیل میں گھوم رہی ہیں۔ آپ کنارے پر کھڑے ڈرتے ہیں۔ آپ کو واٹر فوبیا ہے۔ آپ نے کئی بار مجھے خود بتایا ہے کہ آپ کو پانی سے ڈر لگتا ہے۔ میں کنارے پر کھڑا انہیں کشتی کی سیر کرتے دیکھتا رہا اور نجانے دل کیوں ہر لمحہ دہلتا رہا۔

جب تو بڑا ہو گا اور تیرا بھی اکلوتا بیٹا ہو گا تو میں دیکھوں گی کہ اس کو ایسی شکستہ کشتی پر کیسے بٹھاتا ہے۔ آنکھیں کیا کچھ نہیں دیکھتیں، دشت و صحرا بھی اور گل و گلزار بھی۔ لمحوں کی انگلی تھام کر چلا تو لو دیتے ہوئے چراغوں کا اجالا بھی دیکھا اور اور بجھتے ہوئے چراغوں کا دھواں بھی۔ اپنی زندگی بیک وقت ذاتی بھی ہوتی ہے اور اجتماعی بھی۔ تصویریں بنتی بھی ہیں بگڑتی بھی ہیں۔

کبھی حد نگاہ تک کانٹے ہی کانٹے بچھے ہوئے، سراب ہی سراب، تشنگی ہی تشنگی کبھی پیروں کے نیچے بھیگی گھاس کا دل پذیر لمس، کسی پیڑ کی مہربان چھاوں، آواز دیتا ہوا کوئی رنگ، سانس لیتی ہوئی کوئی خوشبو کبھی راحتیں کبھی کلفتیں۔ اس سارے منظر نامے میں اپنا تو وہی ہے، جو دو پلکوں کے بیچ بسیرا کر لے۔

Check Also

Kabhi Aise Bhi Jootay Polish Karva Lein

By Rauf Klasra