Barish Hai
بارش ہے
بارش ہے اور بوندیں مسلسل گری جا رہی ہیں۔ چھتوں، کھڑکیوں، تاروں، درختوں، گھر کے آنگن سب کچھ دُھلا جا رہا ہے۔ ایسی گیلی رتوں میں بچپن سے لے کر جوانی تک کے اہم اہم واقعات ایسے ذہن میں چلنے لگتے ہیں جیسے بارش کی پہلے کچھ قطروں سے کچی مٹی کی خوشبو ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ چار دنوں سے بارش مسلسل برس رہی تھی۔ ہنزہ میں بہار کا موسم بہہ گیا تھا۔
چیری، سیب، آڑو سمیت سب پودوں کے پھول تیز دھار قطروں نے شہید کر دیئے تھے۔ سڑکوں پر پانی ڈھلوانوں سے بہتا تھا۔ کرنے کو کچھ نہیں تھا صرف بارش اور بارش اور فرصت۔ ہوٹل کے کمرے میں کبھی سڑکوں پر بھیگتے ہوئے دن گزر رہے تھے۔ کریم آباد سے اُتر کر بارش میں بھیگتا میں علی آباد کے بازار میں آ گیا تھا۔ ناٹکو کے اڈے کے سامنے واقع ایک چھوٹے سےچائے کے ہوٹل میں جا کر بیٹھ گیا۔
باہر بارش برسی جا رہی تھی اور ہوٹل کے شیشے سے دھندلی سی راکاپوشی کی چوٹی نظر آ رہی تھی۔ بیٹھے بیٹھے میں پتہ نہیں کتنے چائے کے کپ پی گیا تھا۔ میرے بچپن کا کچا مکان اس میں جلتی لالٹین کہ جس کی پھیکی روشنی نے مجھے لفظوں کے باطن میں اترنے کا حوصلہ بخشا۔ گُم صم گلیوں میں کھیلتی ہوئی آوارہ دھوپ، جس نے مجھے اداس راتوں کے پر ہول سناٹوں سے الجھنے کا سیلقہ سکھایا۔
چاندنی راتوں میں چھت پر پڑے تارے شمار کرنے کا شغل اور دیواروں سے ڈھلتی ہوئی چاندنی کہ جو رائیگاں ہونے کی بجائے میرے خوابوں کا اثاثہ بن گئی۔ دھول میں لپٹی ہوئی ہَوا، جو میرے مسلسل سفر کی اکیلی گواہی بن کر مجھے دلاسہ دیتی رہی۔ سنہری صبحیں، گونگی دوپہریں، بہری شامیں اور اندھی راتیں کتنی ہی کہانیوں کو بُنتے بُنتے راکھ ہو گئیں۔
کیسے کیسے دوست ملے اور بچھڑتے گئے، اب ان کہانیوں کا کوئی بھی سرا میرے پاس نہیں سب میرے ماضی کے پاس گروی ہیں۔ ایسی کتنی ہی بارشیں برس برس کر گزر چُکی اور ان میں بھیگے ہوئے کتنے ہی جسم رزقِ خاک ہو گئے۔ جو بچ گئے وہ رزق کی تلاش میں پتہ نہیں کہاں کہاں سرکرداں ہیں۔ راکا پوشی کی چوٹی اب غائب ہو چکی تھی ہوٹل میں رش لگ گیا تھا۔ سبھی مقامی لوگ چائے پینے بیٹھے تھے۔
پہاڑوں میں لوک داستانیں بڑی مشہور ہوتی ہیں اور لوگ بھی عقیدت سے ان پر یقین رکھتے اور سناتے ہیں۔ ایک بھیگے ہوئے بابا جی میرے سامنے آ کر بیٹھ گئے۔ بارش پر بات شروع ہوئی تو بولے پہاڑی لوگوں کا خیال ہے کہ اونچے پہاڑوں پر درختوں میں کُرلا کُرلی (ایک پرندے کا نام) انہیں برساتوں میں انڈے دیتے ہیں۔ کُرلا کُرلی کو کسی انسان نے نہیں دیکھا کچھ لوگ بیان کرتے ہیں کہ ان کے پر سفید اور چونچ لال ہوتی ہے۔
مجھے یہ پرندے بھی عنقا کی طرح افسانوی معلوم ہوتے ہیں۔ انہوں نے داستان جاری رکھی۔ جب انڈے دے دئے جاتے ہیں تو کُرلی کا جسم اتنا گرم ہو جاتا ہے کہ مسلسل سات دن کی بارش میں نہا کر نارمل ہوتا ہے۔ پہلے سات دن کُڑلی انڈوں پر بیٹھتی ہے اور کُرلا بارش میں بھیگتے ہوئے دانہ تلاش کرتا ہے۔ پھر جھڑی ٹوٹ جاتی ہے اور جب کُرلی گھونسلے سے باہر نکلتی ہے بارش پھر سے ہونے لگتی ہے۔
گھر میں بیٹھے ان بھیگے دنوں میں کیا کیا یاد آنے لگتا ہے۔ زندگی کچھ ایسے اسراروں سے پردہ اٹھاتی ہے۔ جنہیں صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ کیفیات کے اظہار میں بعض اوقات الفاظ گونگے کے اشاروں سے بھی زیادہ مبہم ہو جاتے ہیں۔ پہاڑوں میں کھوئی ہوئی محبتیں اور بھولی ہوئی یادیں پھر لوٹ آتی ہیں، جس طرح بارش کے دنوں میں باھر بوندیں پڑتی ہیں تو انسان کے اندر بھی بارش ہونے لگتی ہے، اوپر سے تو ٹھیک رہتا ہے۔
لیکن اندر سے بھیگ جاتا ہے، اس قدر شرابور کہ آرام سے بیٹھنے کی کوئی جگہ خالی نہیں رہتی۔ یہی کیفیت پہاڑوں میں جا کر ہوتی ہے، اُداسی کی کیفیت چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے، اندر آہستہ آہستہ اندھیرا چھانے لگتا ہے اور باہر پھر چاہے دھوپ ہی کیوں نہ کھِل جائے، کیسی ہی ٹھنڈی ہوائیں کیوں نہ چل رہی ہوں، اندر ٹپا ٹپ بوندیں گرنے لگتیں ہیں اور شدید بارش شروع ہو جاتی ہے۔