Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Baqa Ki Khwahish Jurm Hai?

Baqa Ki Khwahish Jurm Hai?

بقا کی خواہش جرم ہے؟

پاکستان میں کتنے لوگ ہوں گے جو ایران اور اسرائیل، دونوں کا دورہ کرچکے ہوں گے؟ ایران میں کتنے لوگ ہوں گے جو اسرائیل گئے ہوں گے؟ اسرائیل میں کتنے لوگ ہوں گے جنھوں نے ایران دیکھا ہوگا؟

کسی بھی ملک میں کتنے لوگ ہوں گے، جن کا شیعہ پس منظر ہوگا اور یہودیوں سے دوستی ہوگی؟ یا یہودی پس منظر ہوگا اور شیعوں سے دوستی ہوگی؟ کتنے لوگ ہوں گے جنھوں نے مسلمانوں اور یہودیوں کی مقدس کتب کا مطالعہ کرکے ان کی نفسیات جاننے کی کوشش کی ہوگی؟ کتنے لوگ ہوں گے جو دونوں ملکوں کے دانشوروں سے ملاقات کرکے، ان سے گفتگو کرکے موجودہ سوچ جاننے کی کوشش کرچکے ہوں گے؟

چند ایک ہی ہوں گے۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میں ان میں سے ایک ہوں۔ آپ مجھ سے نفرت کرسکتے ہیں، میرے خیالات سے اختلاف کرسکتے ہیں، میری سمجھ بوجھ پر شک کرسکتے ہیں، لیکن میرے جتنا تجربہ نہیں رکھتے۔ مجھے ہرگز یہ چاہت نہیں کہ کوئی مجھ سے اتفاق کرے۔ یہ جاننے کی بھی خواہش نہیں کہ کوئی مجھے کیا سمجھتا ہے۔ میں خود محض ایک طالب علم کے طور پر معاملات کو جاننے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔

جب مجھے کسی حد تک حقائق کا علم ہوجاتا ہے، یا یہ کہہ لیں کہ میں اپنی رائے قائم کرلیتا ہوں، تو پھر اسی معاملے پر دوسروں کا تاثر جاننا چاہتا ہوں۔

اکثر افسوس ہوتا ہے۔ تھوڑا سا نہیں، بہت زیادہ۔ مذہبی ہونا کوئی مسئلہ نہیں، لیکن ہمارے لوگ بے حد جذباتی ہیں۔ جذبات اکثر گمراہ کرتے ہیں۔ عقل مفلوج کردیتے ہیں۔ بصیرت اور بصارت کو دھوکا دیتے ہیں۔

ایران اور اسرائیل تقریباََ ایک جیسے ملک ہیں۔ دونوں کی ہزاروں سال کی تاریخ ہے۔ ہزاروں سال پرانی تہذیب ہے۔ دونوں کے ہزاروں سال پرانے رشتے ہیں۔ دونوں پر اہل مذہب کا تسلط ہے۔ دونوں دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ دونوں کے عوام اپنی حکومتوں کی وجہ سے مشکل میں ہیں۔ دونوں کو ترقی یافتہ مسیحی اور غیر مسیحی ملکوں کے تعصب کا سامنا ہے۔

اگر کوئی فرق ہے تو یہ کہ ہزاروں سال کی جلاوطنی، ظلم اور ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں نے سروائیو کرنے کے بہتر ڈھنگ سیکھ لیے ہیں۔ انھوں نے سائنس و ٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں میں غیر معمولی کارکردگی سے اپنے لیے مقام بنالیا ہے۔ کاروباری حلقوں میں لوہا منوایا ہے۔ ایجادات کی ہیں اور نوبیل انعام حاصل کیے ہیں۔ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کو عالمی سطح پر قبول اور نافذ کرنے کے لیے کاوشیں کی ہیں۔ دنیا بھر میں دوست بنائے ہیں۔

اسرائیل اور یہودیوں کا صرف ایک مطالبہ ہےکہ ان کے بچوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔ انھیں صرف اپنی بقا کی خواہش ہے۔ ہزاروں سال تک دوسروں کے ملکوں میں بھٹکنے اور ظلم سہنے کے بعد انھیں اپنا وطن واپس ملا ہے۔ اب وہ اسے نہیں کھوسکتے۔ اس کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہیں۔

غزہ اور مغربی کنارے میں جو ہوتا ہے، اس کی کوئی امن پسند شخص حمایت نہیں کرسکتا۔ اسرائیلی حد سے آگے گزر جاتے ہیں۔ لیکن صرف مذمت کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ سوچنا چاہیے کہ ہٹلر کا ظلم سہنے والے دوسروں کو کیوں مٹانا چاہتے ہیں؟ کیا یہ اتنے ہی ظالم لوگ ہیں؟

مسلمانوں کو صرف ایک طرف کا بیانیہ سننے کو ملتا ہے۔ دوسری طرف کا موقف یہ ہے کہ فلسطینی بھی ظالم ہیں۔ ان کے پرائمری اسکولوں تک میں یہودیوں کو قتل کرنے کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ ان کا بچہ بچہ جان لینے اور جان دینے کی آرزو رکھتا ہے۔ اگرچہ مجھے پوری طرح یقین نہیں لیکن اسرائیلی فوجیوں نے مجھے بتایا کہ وہ جس فلسطینی گھر یا کیمپ یا اسپتال پر چھاپا مارتے ہیں، وہاں ہٹلر کی تصویر، اس کی کتاب، اس کا نشان برآمد ہوتا ہے۔ وہ فلسطینیوں کا آئیڈیل ہے۔

اسرائیل مسلمانوں کے لیے ناجائز ریاست ہے۔ لیکن کس فارمولے کے تحت؟ قدیم امریکیوں سے پوچھیں، ان کے لیے موجودہ امریکی ریاست ناجائز ہوگی۔ عثمانی ترکوں سے پوچھیں، ان کے لیے سعودی عرب ناجائز ریاست ہوگا۔ ناراض بلوچوں سے پوچھیں، ان کے لیے پاکستان ناجائز ریاست ہوگا۔ انقلاب کے بعد وطن چھوڑنے والے ہزاروں ایرانی امریکا میں موجود ہیں۔ یہیں فئیرفیکس میں ان کی بڑی آبادی مقیم ہے۔ ان کے لیے ایرانی ملا رجیم ناجائز ہے۔

مسئلے کا صرف ایک حل ہے، جس کے بعد موجودہ جنگ بھی ختم ہوجائے گی، غزہ کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا، پورے خطے میں امن ہوجائے گا۔ لیکن وہ حل کوئی مانے گا نہیں۔ حل یہ ہے کہ ترکی، اردن اور مصر کی طرح تمام مسلمان ملک، ایران اور پاکستان سمیت تمام مسلمان ملک اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ اس کے وجود کو مٹانے کی باتیں چھوڑ دیں۔ اس کے لیے خطرہ بننے کا ارادہ ترک کردیں۔

بہت سے امریکی اور یورپی مسیحی اسرائیل کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن وہ اسے ختم بھی نہیں ہونے دیں گے۔ ایران کے ساتھ سارے مسلمان ملک کھڑے ہوجائیں تب بھی اسرائیل کو نہیں مٹاسکتے۔ لاحاصل مشق کرنے سے اپنا ہی نقصان ہوگا۔

ایران کو بھی نہیں مٹایا جاسکتا۔ لیکن عربوں، اسرائیل اور امریکا کو پراکسی وارز کے ذریعے پریشان کرنے والے ملا رجیم کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اسرائیل اگر فوجی جرنیلوں کے بجائے نگہبان کونسل کو اڑا دیتا تو ایسا ہوجاتا۔ یہ اب بھی ناممکن نہیں۔ ایران میں بہت سے لوگ مجتہدین کے حامی ہیں لیکن بہت سے خلاف بھی ہیں۔ خلاف نہ ہوتے تو اسرائیل کی مدد کرتے؟ ان کی مدد نہ ہوتی تو اسرائیل اتنے ٹھیک ٹھیک نشانے لگا پاتا؟

اسرائیل کی بھی حکومت بدلنی چاہیے۔ نیتن یاہو شدت پسند وزیراعظم ہیں۔ ان کی حکومت کمزور بھی ہے۔ لیکن جب تک اسرائیل کی بقا کو خطرہ رہے گا، ایران جیسے ملکوں کی دھمکیاں ملتی رہیں گی، نیتن یاہو کو سیاسی حمایت فراہم رہے گی، وہ برسراقتدار رہیں گے۔ اگر چلے گئے تو کوئی اور شدت پسند وزیراعظم آجائے گا۔

یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ مشرق وسطی میں امن اور فلسطینیوں کا تحفظ اسرائیل کو خطرات کے خاتمے سے مشروط ہے۔

Check Also

Ye Jahan Ke Engine Kyun Band Kiye?

By Saqib Ali