Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Bacha Jamora Ghoom Ja

Bacha Jamora Ghoom Ja

بچہ جمورا گھوم جا

بہت پہلے کہا تھا ناں کہ سارا پنڈ وی مر جائے تے نوازشریف وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ اس کی وجوہات تھیں۔ مقتدرہ کبھی اس پر یقین نہیں کر سکتی جو تین بار ان کو گندے گندے اشارے کرانے پر رخصت کیا گیا ہو۔ میاں جی کے ساتھ ہاتھ ہونا تھا ہاتھ ہو چکا ہے۔ یہ ان کی جماعت کی آخری حکومت بننے جا رہی ہے۔ بس ڈیڑھ دو سال اس کے بعد مسلم لیگ نون کا اقتدار سے مستقل صفایا ہے۔

اس میں گہری نشانیاں ہیں۔ جس جس نے کاندھے استعمال کئے اور چور دروازے سے داخل ہوا یا ہونے کی کوشش کی اس نے نقصان ہی اُٹھایا ہے۔ بہت پہلے کہا تھا کہ شہباز شریف جیسا بخشو اگر موجود ہے تو کیا "وہ" پاگل ہیں جو نوازشریف کو لے آئیں۔ اس وقت آپ سب کو لگتا تھا کہ میاں جی تو آ رہے اور آ گئے اور بس اب ان کی بات ہوگئی ہے۔ ارے صاحبو کچھ زمینی حقائق ہوتے ہیں ان پر بھی نظر رکھا کریں۔ خواہشات سے کام ہونے لگیں تو کیا ہی بات ہو۔ اسٹیبلشمنٹ کے لیے کیا مشکل تھا اگر نوازشریف کو لانا ہوتا تو نون لیگ کو انتخابات میں پنجاب سے کلین سویپ نہ کروا دیتے؟ کون مائی کا لعل ان کا کچھ اکھاڑ لیتا؟

مریم بیبی پنجاب میں ایسی رسوا ہوگی کہ لوگ بزدار کو بھول جائیں گے۔ محترمہ کے پاس اپر پورشن بزدار جیسا ہی خالی ہے۔ انٹلیکٹ ان میں وجود نہیں رکھتا۔ وفاق میں نون لیگ کو پیپلز پارٹی رول بیک کرے گی۔ ان کا اچھا سا جنازہ تیار ہو رہا ہے۔ آپ دیکھتے جائیں یہ کب اُٹھتا ہے اور کون نماز پڑھانے کو امام بنتا ہے۔ نوازشریف صاحب مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہونے پر اسٹیبلشمنٹ سے سخت نالاں ہیں۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ ان کے ساتھ ہاتھ کر دیا گیا ہے۔ ان کی جماعت کو باندھ کر شکاری کے آگے ڈال دیا گیا ہے۔

پیپلز پارٹی مستقبل قریب میں اقتدار کی سیڑھی چڑھنے جا رہی ہے۔ اس کے واسطے راہ کھُل رہی ہیں۔ بلاول کو اگلوں نے ابھی انڈر آبزرویشن رکھا ہوا ہے۔ اس کی وجہ بلاول کے کچھ غیر متوقعہ بیانات بنے ہیں جن کے سبب کرتے دھرتے اس پر اعتماد کرنے کو ہچکچکا رہے ہیں۔ زرداری صاحب البتہ ان کو یقین دہانی کرا رہے کہ ابھی بچہ ہے فکر نہ کریں سمجھ جائے گا، سمجھا دیں گے۔

باقی آپ پوچھیں کہ عمران خان صاحب اور تحریک انصاف کا کیا ہوگا؟ تاحال یہ جماعت اور اس کے فالورز خود ساختہ بنائی جنت سے باہر نہیں نکل پا رہے۔ ان کی خوش فہمیوں کے سلسلے دراز ہو رہے ہیں۔ اور یہ اچھا شگون نہیں۔ اس ملک میں کبھی کوئی بنا منظور نظر ہوئے اقتدار نہیں لے سکا۔ عمران خان صاحب پھر ایک غلط فیصلہ کر رہے ہیں۔ علی امین گنڈاپور کا انتخاب ایک بلنڈر ہے۔ نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج ہے بلکہ گنڈاپور صاحب کا انتخاب اپنے مینڈیٹ کا بھی مزاق ہے۔ کسی سنجیدہ مزاج شخص کا انتخاب ہونا چاہئیے تھا جو عادات و اطوار سے قابل قبول ہوتا۔ مگر ہم نے دیکھا ہے معاشرہ ہی ایسا ہے جو ٹچے، لفنگے، بدمعاش اور اس قماش کے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ ساری جماعت آج تک ایک سے بڑھ کر ایک نمونہ عوام کی خدمت میں پیش کرتی رہی اور ان کے فالورز مزید بڑھکیں مارنے میں لگے رہے۔ شہباز گِل تا بزدار ایک لمبا سلسلہ رہا۔ پھر شیر افضل مروت مرکزی دھارے پر نمودار ہوگیا اور وڑ گیا وڑ گیا کو سراہا گیا۔ اس سلسلے کی کڑی علی امین گنڈا پور ہے۔ اور فالورز دھن پر مست اپنے ناچ میں مگن ہیں۔

نجانے کیوں اپنے بچپن سے وہ کردار یاد آ گیا جسے عرف عام میں مداری کہا جاتا تھا۔ مداری سر پر پگڑی باندھے، اپنے ہمراہ ایک بکری، بندر اور بچہ لیے چلتا۔ پھر گلی کے چورا ہے پر پہنچ کر بیٹھ جاتا اور تماشہ شروع کر دیتا۔ پہلے بکری کا کرتب دکھاتا پھر بندر کے تماشے کی باری آتی اور سب سے آخر میں یعنی شو سٹاپر وہ بچہ جمورا ہوتا جو مداری کی ڈگڈگی بجانے پر گول گول گھومنے لگتا۔

مداری: بچہ جمورا گھوم جا

بچہ: گھوم گیا

مداری: جھوم جا

بچہ: جھوم گیا

مداری: جو پوچھوں گا سچ سچ بتائے گا؟

بچہ: جی استاد۔۔

جی ہاں یہ جماعت کا حق ہے وہ جسے بہتر سمجھے اسے عہدے دے اور آپ ووٹر تو ہر سیاسی جماعت کے بچے جمورے ہیں۔

بچہ جمورا گھوم جا

گھوم گیا

جھوم جا

جھوم گیا۔۔

جو پوچھوں گا بتلائے گا؟

جی استاد

بچہ کدھر کو گھوما؟

استاد ضمیر کے قیدی کی جانب۔۔

سچی بات تو یہی ہے کہ

جس دا عمران مولا

اونوں کاہدا رولا

میں تو اس خیال کا ہو چلا ہوں کہ اس مخصوص جماعت اور اس کے فالورز سے کلام کرنا ایسا ہے جیسے وہ نظم

"میرے عزیزو تمام دُکھ ہے"

آپ جو مرضی کہیں۔ جیسا مرضی کہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

مرد ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر

اور اس کی وجوہات بھی تو پتھریلی حقیقت ہیں۔ وہ بُت جو ادارے نے شبانہ روز محنت کے ساتھ کھڑا کیا تھا وہ کافی دیوہیکل بنا دیا تھا۔ سنہ 2011 تا 2019 ایک شخص کو نجات دہندہ، قائداعظم ثانی، امت کا لیڈر، سادہ مزاج، نمازی پرہیزی، مذہبی روحانی پیش کیا گیا ہے۔ اب تو جون کا شعر ہی یاد آتا ہے

حاصل کُن ہے یہ جہانِ خراب

یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں

ابھی یہ مست رہیں۔ لگے رہیں۔ چلتے رہیں۔ اگر قائد محترم کو کچھ ہوش آ گئی تو تب دیکھیں گے کہ کیا کرتے ہیں۔ جب تک یہ آئیڈیل ازم اور گراؤنڈ رئیلٹی میں فرق نہیں جان لیتے ان کا کچھ نہیں ہو سکتا۔

Check Also

Something Lost, Something Gained

By Rauf Klasra