Aundiyan Naseeban Naal
آندیاں نصیباں نال

گذشتہ روز سخت گرمی پڑی۔ اس قدر شدید کہ میرا منہ بھی میرے شناختی کارڈ پر چھپی تصویر جیسا ہوگیا۔ لیکن خدا بڑا مسبب الاسباب ہے۔ اس نے دفتر سے گھر پہنچتے ہی میرے لیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا چلا دیا۔ بیگم صاحبہ کی جانب سے یہ خوشخبری ملی کہ وہ بروز اتوار بچوں سمیت اسلام آباد اپنی بڑی بہن کے ہاں چھ روز کے لیے جانا چاہتی ہیں۔ وللہ، یہ سن کر دل ایسا باغ باغ ہوا کہ میں نے اسی وقت ہنسی خوشی ان سب کی آن لائن ٹکٹیں کروا لیں۔ یہ رسک ہی نہیں لیا کہ کل کروا لوں گا مبادا بیگم صاحبہ کا ارادہ نہ بدل جائے۔ آندیاں نصیباں نال اے گھڑیاں۔ دعا رہے گی میرے قارئین میں جو بال بچوں والے ہیں ان کو بھی ایسی امن و شانتی کی گھڑیاں نصیب ہوں۔
فطرت جب آپ پر مہربان ہوتی ہے تو ہر شے حسین لگنے لگتی ہے۔ آج جھلستی دھوپ بھی سہانی اور کیاری میں کھِلا جنگلی گہرا زرد پھول بھی گلاب لگ رہا ہے۔ من ہی من میں پھول کھِل رہے ہیں۔ کچھ پلان ترتیب پا رہے ہیں۔ کچھ ادھوری خواہشات سر اُٹھانے لگی ہیں۔ کچھ دیر پہلے سوچ رہا تھا کہ ایک دن بانسوں کے جنگل رانا ریزارٹ میں گزار کر آؤں۔
بانسوں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
ہم تو پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے
ایک بات تو خان صاحب ٹھیک کہتے ہیں کہ حقیقی آزادی کا سواد ہی اور ہے۔ مجھے اچھے سے یاد ہے آٹھ نو ماہ قبل وہ جب چار دن کے لیے میکے گئی تھیں۔ وہ چار دن مانو جیسے پلک جھپکنے میں بِیت گئے تھے۔ خوشی کی گھڑیاں مختصر ہوتی ہیں۔ بس ہر تیسرے گھنٹے واٹس ایپ پر "کیا کر رہے ہیں؟" کا جو تفصیلی جواب دینا ہوتا ہے اس کا کوئی حل ہو جائے تو اچھا ہے۔ بس کچھ ہوتا یوں بھی ہے کہ مدتوں بعد اپنے گھر میں اکیلے رہ کر وہم سے آتے ہیں کہ جیسے اِدھر سے کوئی برق رفتار ہیولہ سا گزرا ہے یا کچن سے آوازیں آ رہی ہیں۔ یا اچانک کانوں میں بیگم کا تکیہ کلام غیبی آواز کی صورت گونجنے لگتا ہے "شیم آن یو۔۔ "۔ بس اسی سبب سہم سا جاتا ہوں۔ شاید ذہن اس بات کو مکمل قبول نہیں کر پاتا کہ شاہ توں سچ وچ پورا آزاد ایں۔
میٹھے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ شرٹ اتار کے گھما کے اپنی مرضی سے پھینک سکتا ہوں۔ سکون سے نیٹ فلیکس دیکھتا ہوں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا کہ پچھلے سین میں کیا ہوا مجھے بتائیں، میں نے نہیں دیکھا۔ ایسی شانتی ہوتی ہے کہ گھر کے عقبی خالی پلاٹ سے جھینگڑوں کی ٹیں ٹیں بھی سنائی دیتی ہے ورنہ وہ کب سنائی دیتی تھی۔ پچھلی بار ان گھڑیوں میں گھر کی دہلیز پر ایک ننھا مینڈک بھی خوشی سے پھُدک رہا تھا۔
آفس میں بے سبب خوش رہتا ہوں۔ اس تبدیلی کا راز میرے کولیگز جان لیتے ہیں۔ خاص کر ہمارے چیف اکاؤنٹنٹ جنہوں نے دو شادیاں کر رکھیں اور دو گھر لے رکھے۔ ان کا ایک پیر ایک گھر میں ہوتا ہے تو دوسرا دوسرے گھر میں۔ درمیان میں سسرالی تنگ کر دیتے ہیں۔ مگر مقدر کے دھنی ہیں۔ ہماری دونوں بھابھیاں وراثتی طور پر کافی مالدار ہیں۔ وہ مجھے رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ کہنے لگے " یار مہدی، اصل امیر تم ہو۔ میں ایسی خوشی کا احساس چاہتا ہوں مگر نصیب میں نہیں لکھا ہوا"۔ لیکن سچی بات ہے وہ میرے لیے بہت خوش ہوتے ہیں۔
میرا ایک دوست ایڈووکیٹ لندن ہائیکورٹ انعام رانا ہے۔ ہماری بھابھی پولش ہیں۔ سال میں ایک بار کرسمس کے پاس پولینڈ جاتی ہیں۔ وہ دن انعام رانا کی زندگی کے سالانہ خوشگوار ترین دن شمار ہوتے ہیں۔ دسمبر 2024 کی چھٹیوں میں وہ بھابھی کو ائیرپورٹ اتار کر خوشی خوشی گھر واپس جا رہے تھے۔ فرطِ جذبات میں گاڑی میں اونچا میوزک لگا کر سیٹ پر پھدکتے ہوئے گاڑی تیز بھگانے لگے۔ خوشی دیدنی تھی اور پھر ایسے لمحوں میں انسان کا دل چاہتا ہے وہ لونڈا بن جائے اور لپاڑوں جیسی حرکات کرے۔ اوور سپیڈنگ پر چالان ہوگیا۔ افسردہ لہجے میں مجھے کال کرکے کہنے لگے میرا ٹریفک چالان ہوگیا ہے۔ میں نے عام بات سمجھتے ہوئے کہہ دیا کہ کوئی بات نہیں، چالان کا کیا ہے، تم یہ دن انجوائے کرو۔ بولے " میری جج کی پوسٹ کے لیے ریکومنڈیشن گئی ہوئی ہیں۔ میرے کیرئیر کے لیے ٹریفک چالان بہت برا ثابت ہو سکتا ہے۔ مجھے ٹینشن لگ گئی ہے۔ "۔ پریشان سے رہے۔ پر مولا کا کرم ہے ان کا دوست سادات سے تعلق رکھتا ہے۔ دعا کی اور رب نے مظلوم سید کی دعا سُن لی۔ وہ آجکل پارٹ ٹائم جج بھی ہیں۔
ہاں، غم و خوشی کا ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یوں بھی نہیں کہ ہر لحظہ خوشی محسوس ہوتی رہے۔ مجھے بھی ایک اٹکل آن پڑتی ہے۔
گئی ہے جب سے وہ میکے عجب ہی حال ہے اپنا
میں کھانا خود بناتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

