Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Asal Gal Main Dasna Waa

Asal Gal Main Dasna Waa

اصل گَل میں دسنا آں

ایک بات اکثر سننے میں آتی ہے پاکستان میں غیرت ہوتی تو یوں کرتا۔ عربوں میں غیرت نہیں۔ فلانی ریاست بیغیرت ہے اور فلاں غیرتمند ہے۔ ایسی باتیں کرنے والے ہمارے لوگ شاید ریاست کو انسانی پیکر سمجھتے ہیں۔ غیرت اور بیغیرتی ریاستوں میں نہیں ہوا کرتی۔ ریاست کوئی انسانی جسم نہیں ہوتا جس کے ہارمونز ہوں اور جذباتی اُتھل پُتھل کا شکار ہوتی رہے۔ ریاست اداروں پر قائم ہوتی ہے۔ ریاستی میکانیزم بیرونی دنیا کے ساتھ سفارتکاری پر چلتا ہے اور اندرونی طور پر ادارے مل کر ریاست کے ستون بنتے ہیں۔ ریاست دوسری ریاست سے باہمی مفاد کے تعلق سے جڑتی ہے اور مفاد پر زک پڑنے کی صورت ناطے توڑتی ہے۔ یہ دنیا ہزار ہا سالوں سے یونہی چلتی آئی ہے۔

جس فرد یا ملک کے ہاتھ میں چیک بک ہے یا جو ہماری معیشت اور ضروریات کے لیے سود مند ہے اس سے زیادہ شریف، نجیب الطرفین، خاندانی، ہمدرد، بھولا کوئی نہیں۔ جو فرد یا ملک نہ ہمیں کوئی فائدہ دے سکتا ہے نہ ہم سے کوئی فائدہ اٹھانے کے قابل ہے اس سے زیادہ گھٹیا، بے وقوف، نااہل اور دھرتی پر بوجھ کوئی اور نہیں۔

ایران جب تک امریکی منڈی تھا اور خطے میں اس کی تمام ضروریات پوری کر رہا تھا اس کی اہمیت ہتھیلی کے چھالے جیسی تھی۔ شاہ ایران سے زیادہ بیدار مغز، عوام دوست اور آزاد دنیا کا محسن علاقے میں کوئی اور نہ تھا۔ جیسے ہی شاہ گیا اور ایران مغرب کے ہاتھ سے نکلا مغرب کو احساس ہوا کہ اس سے زیادہ بدکار اور گھٹن زدہ ملک علاقے میں کوئی اور نہیں۔

سعودی تیل سے جب تک دنیا کا حلق تر ہے اور سعودی عرب جب تک ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے تب تک اسے ایک خاص حد سے زیادہ خفا نہیں دیکھا جاسکتا۔ آج سعودی کنوئیں خشک ہو جائیں اور اسلحہ ساز کمپنیوں کو دیے گئے چیک باؤنس ہونے لگیں تو سعودی عرب سے زیادہ رجعت پسند، ظالم، قبائل اور اجڈ علاقے میں کوئی اور نہ ہوگا اور اچانک مہذب دنیا پر کھلے گا کہ وہاں کے مظلوم عوام کس طرح خاندانی تانا شاہی تلے جوج رہے ہیں۔ تب یہ ظلم نہ امریکہ سے دیکھا جائے گا نہ یورپ سے۔

کل تک سوویت یونین پاکستان کے لیے سرخ بقائی خطرہ تھا اور پاکستان سوویت یونین کی نگاہ میں امریکی کٹھ پتلی تھا۔ آج ہمارے لیے روس ایک اہم ہمسایہ ہے جس سے اچھے تعلقات دوطرفہ مفاد میں ہیں۔ کبھی کہا جاتا تھا ترکی، ایران اور پاکستان دراصل تین جڑواں بھائی ہیں انہیں پیار سے آر سی ڈی کہا جاتا ہے۔ پھر عربوں سے اُدھار تیل اور مالی تعاون کا رشتہ بڑھا تو اس دوران درسی کتابوں سے ایران اور ترکی آر سی ڈی کے راستے جانے کب دبے پاؤں نکل گئے۔

ساٹھ کی دہائی تک پاکستان اور ایران جڑواں بھائی تھے۔ ستر کی دہائی سے سعودی عرب بڑا بھائی ہے۔ قصہ مختصر اس دنیا میں وہی تعلق کارآمد ہے جو مفاداتی اینٹوں کو دھندے کے سیمنٹ سے جوڑ کر اٹھایا جائے۔ باقی سب کہانی ہے، بھوت ووت ہے، وہم ہے۔

جب تک ہم دنیا میں رونما ہونے والے معاملات کو دیکھنے کے لیے ریشنل اپروچ سے کام نہیں لیں گے، سفارتکاری کا میکانیزم نہیں سمجھیں گے، ریاستی مفادات کا دامن نہیں تھامیں گے تب تک غیرت بریگیڈ ریاست کو بھی اپنے جیسا انسانی جسم سمجھتے ہوئے جذباتی سطحی جملوں کا استعمال ترک نہیں کرے گی۔

ان سب معاملات کو سمجھنے کے لیے تعلیم، شعور اور تاریخ پر نظر ہونا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں شرح خواندگی 60 فیصد بتائی جاتی ہے لیکن یہ وہ شرح ہے جو ریاست کی اس تعریف پر اترتی ہے جو نام لکھنا پڑھنا جانتا ہو وہ خواندہ ہے۔ دراصل خواندگی کی شرح 30 فیصد سے بھی کم ہے۔ یہاں لوگ سنی سنائی باتوں، سوشل میڈیا پراپیگنڈا اور اپنے اندرونی جذبات یا وابستگی یا عشق کی رو میں بہتے ہوئے رائے قائم کرتے اور وہی رائے پھیلاتے ہیں اور جہاں ان کی بے سرو پا رائے کے منافی کچھ آ جائے وہاں ڈانگ نکال کر مولا جٹ رویہ اپنا لیتے ہیں"اوئے توں بوہتی بکواس نہ کر۔ اصل گَل میں دسنا آں"۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam